مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، موسیٰ داداش زادہ: ترکی کے سیاسی حلقے میں یہ مشہور ہے کہ "جو بھی استنبول کے انتخابات جیتے گا وہ ضرور ترکی کے صدارتی انتخابات جیتے گا۔
یہ بیان استنبول میں ہونے والے انتخابات کی اہمیت اور ترک صدارتی بیلٹ باکس پر اس کے اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔
اس جملے کی ایک معروضی مثال یہ ہے کہ اردگان، عوام کے ووٹوں سے 1994 میں استنبول کے میئر بنے اور بنیادی طور پر ترکی کے عوام نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اور ایردوان کو بلدیہ میں اچھی کارکردگی کی وجہ سے اقتدار میں لایا۔
استنبول کے بلدیاتی انتخابات کی اہمیت کے حوالے سے یہ بتانا کافی ہے کہ استنبول کا میونسپل بجٹ ترکی کے دیگر 80 شہروں سے بہت زیادہ ہے اور یہ 2024 میں 516 بلین لیرا (16.05 بلین ڈالر) تھا جب کہ انقرہ کے بجٹ کا اعلان 92 بلین لیرا (2.8 بلین ڈالر) کیا گیا تھا۔
2018 تک، حکمراں جماعت کی استنبول کے میونسپل انتخابات میں مضبوط اور بلا مقابلہ موجودگی تھی اور وہ 25 سال تک اس اہم عہدے پر رہی، لیکن 2019 میں، اکرم امام اوغلو نامی سیاست دان کو ریپبلک پارٹی (اردوگان کی سب سے اہم اپوزیشن جماعت) کی حمایت حاصل تھی اور اس دوراون اردگان نے استنبول پر اقتدار کی کرسی کو خطرے میں دیکھا اور بن علی یلدرم (ترکی کے سابق وزیر اعظم) کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے گراونڈ میں اتارا لیکن مطلوبہ نتیجہ حاصل نہ ہوسکا اور امام اوغلو انتخابات جیت کر اس شہر میں حکمران جماعت کی حکمرانی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
اکرم اوغلو نے استنبول میونسپلٹی کے اپنے 5 سالہ دور میں، شہری نقل و حمل کی ترقی اور خدمات کی بہتری کے لئے اچھے اقدامات کیے اور مارچ 2024 کے انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے امیدوار کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔
لیکن استنبول کے دو میونسپل انتخابات (2019 اور 2024) کے درمیان اہم واقعات رونما ہوئے اور ترکی پر اردگان کی حکمرانی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
پہلا واقعہ 2023 کے صدارتی انتخابات کا دوسرے راؤنڈ تک جانا اور لوگوں میں اردگان کی پوزیشن کا کمزور ہونا تھا۔
گزشتہ انتخابات (2014 اور 2018) میں، وہ 51 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور ایک مرحلے پر صدر بن گئے۔
ایک اور اہم واقعہ ریپبلکن پارٹی میں زبردست تبدیلی تھی۔ اس پارٹی کے نوجوان ممبران نے Özgur Ozel (ایردوان کے کٹر مخالفین میں سے ایک) کو مقابلے میں لایا۔
ان کا خیال تھا کہ استنبول میونسپلٹی میں شاندار ریکارڈ رکھنے والے 53 سالہ امام اوغلو صدارتی انتخابات کے لیے امیدوار ہوتے تو اردگان کی شکست یقینی تھی۔
ان واقعات سے ترکی کے سیاسی منظر نامے میں ایک نئی صف بندی ہوئی۔ اسکوائر کے ایک طرف ایردوان تھے، جن کی مقبولیت کا گراف حکومت کی جانب سے لوگوں کو معاشی مشکلات میں ڈالنے اور آزادی اظہار کو محدود کرنے کی وجہ سے کم سے کم تر ہوتا جا رہا تھا، اور دوسری طرف اکرم اوغلو تھے، جو استنبول کے شہری شعبوں میں خدمات انجام دینے کی وجہ سے زیادہ مداح حاصل کر رہے تھے۔
لیکن آج، گزشتہ چند دنوں کے واقعات کے بعد، ترکی میں سیاسی ماحول مزید کشیدہ اور معاشرے میں شدید اشتعال پیدا ہو گیا ہے۔
ریپبلکن پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات سے چار دن پہلے ترک پولیس نے استنبول کے میئر کو گرفتار کیا اور پراسیکیوٹر نے ان پر PKK دہشت گرد گروپ کے ساتھ تعاون کرنے اور معاشی بدعنوانی کا الزام لگایا۔
اس کارروائی کا نتیجہ استنبول، انقرہ، ترابزون اور ازمیر جیسے بڑے شہروں میں اردگان اور ترکی کے عدالتی نظام کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی شکل میں سامنے آیا ہے۔
اب رائے عامہ میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ریپبلکن پارٹی کے داخلی انتخابات اور امام اوغلو کے باضابطہ اعلان سے چار روز قبل استنبول کی عدلیہ نے ان کے خلاف مقدمہ دائر کرکے ان پر دہشت گردی کی مدد اور مالی بدعنوانی کا الزام کیوں لگایا؟
ترکی کے سیاسی مستقبل کے لیے دو آپشنز کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ سب سے پہلے، ترک عدلیہ نے امام اوغلو کو مذکورہ بالا الزامات کا مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں قید یا ان کی سیاسی سرگرمیوں پر کئی سالوں کے لیے پابندی عائد کر دی ہے، ایسی صورت میں ریپبلکن پارٹی 2028 کے انتخابات کے لیے کسی امیدوار کو نامزد نہیں کرے گی، جس سے ترکی میں جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔
دوسری پیشن گوئی استنبول کے میئر کے خلاف الزامات کی برطرفی کی طرف اشارہ کرتی ہے، اس صورت میں وہ 2028 کے انتخابات میں نظر آئیں گے اور اردگان کے لیے سخت حریف ثابت ہوسکتے ہیں، یہاں تک کہ انہیں شکست دے کر ترکی پر جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی حکمرانی کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ دوسرا آپشن حقیقت سے بہت دور ہے اور امام اوغلو کا انجام جیل یا پھر سیاسی دنگل سے باہر ہونا ہے۔
دونوں صورتوں میں، اردگان کو سیاسی اکھاڑے میں شکست ہوگی اور عدالت کی طرف سے استنبول کے میئر کی گرفتاری اردگان اور حکمران جماعت کے لئے مہنگی ثابت ہوگی۔
آپ کا تبصرہ