مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شام میں تعیینات ایرانی سفیر حسین اکبری نے کہا ہے کہ اسٹرٹیجک شہر حمص پر تکفیری دہشت گردوں کے قبضے کے بعد شامی فوج نے مزاحمت کرنا چھوڑ دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ آخری رات شامی حکومت نے اجلاس منعقد کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ دارالحکومت میں کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی جائے گی۔ اس کے بجائے حکومت اور مختلف شعبے باضابطہ طور پر تکفیری دہشت گردوں کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ یہ فیصلہ وزیرِاعظم کے بیان کے ذریعے عوام اور مسلح افواج کو پہنچایا گیا۔
اکبری نے دہشت گرد تنظیموں تحریر الشام اور داعش کے درمیان واضح فرق پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تحریر الشام، داعش سے مختلف ہے کیونکہ انہوں نے ماضی میں داعش کے خلاف لڑائی کی ہے اور ان کے درمیان فکری اور فقہی اختلافات موجود ہیں۔
ایران کے شام میں سفیر نے صیہونی حکومت کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی حکومت اس وقت اپنی کامیابی پر خوش ہے کہ اس نے اپنے ایک دشمن کو ختم کر دیا ہے۔ دہشت گردوں کی کامیابی خاص طور پر مشرق وسطی میں جاری بحران کے دوران ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہی ہے جسے نتن یاہو نے خود ایک اہم کارنامہ قرار دیا ہے۔ وہ اس واقعے کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کر کے یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے کوئی اہم کام کیا ہے۔
انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر بعض قوتیں خطے میں مضبوط ہو گئیں تو یہ صیہونی حکومت کے لیے ایک سنجیدہ اور دوہرا خطرہ بن سکتی ہیں۔ اسی وجہ سے صیہونی حکومت نے پیشگی اقدامات شروع کئے ہیں۔
شامی حکومت کے دارالحکومت میں مزاحمت نہ کرنے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے اکبر نے کہا کہ میرے خیال میں شام نے ایک دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ جب فوج مزاحمت نہ کر سکے، تو عوام بھی نہیں کر سکتے۔ ایسی صورتحال میں بہتر ہے کہ خونریزی کو روکا جائے اور مختلف مقامات اور اہم مراکز کو تباہی سے بچا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شام میں سب سے بڑی تشویش شامی عوام کی حالت ہے، کیونکہ وہ اس سرزمین، حکومت اور اس خطے کے مستقبل کے اصل مالک ہیں۔ موجودہ حالات میں مختلف ممالک کی مداخلتوں کے پیش نظر شامی عوام اور ان کے مفادات کو خطرہ لاحق ہے۔
اکبری نے کہا کہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ جو کوئی بھی ظلم خاص طور پر صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، وہ ہمارا اتحادی ہے۔ ہم شام کی خودمختاری اور دنیا بھر کی تمام اقوام کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔
انہوں نے نئے مشرقِ وسطی کی تشکیل کے امریکی عزائم پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی وہ اہداف حاصل نہیں کر سکیں گے جن کا انہوں نے نئے مشرق وسطیٰ کے لیے منصوبہ بنایا ہے۔ خطے میں ہونے والی تبدیلیاں امریکی کنٹرول سے باہر ہوں گی اور ان کے اسٹریٹجک مقاصد کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
آپ کا تبصرہ