9 دسمبر، 2024، 1:28 AM

مقاومت اور آئیڈیالوجی جو کبھی ختم نہیں ہوگی، ایرانی وزیر خارجہ

مقاومت اور آئیڈیالوجی جو کبھی ختم نہیں ہوگی، ایرانی وزیر خارجہ

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ مزاحمت ایک مکتب اور آئیڈیالوجی ہے جو شام کے بغیر اپنا راستہ تلاش کرے گی اور ہم مزاحمت کی حمایت جاری رکھیں گے۔

مہر نیوز کے نامہ نگار کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے خطے کی حالیہ صورت حال کے حوالے سے ایک خصوصی نیوز پروگرام میں اظہار خیال کیا۔

انہوں نے کہا کہ میری رائے میں سب کچھ واضح تھا، اس سے پہلے تجزیے  اور رپوٹس موجود تھیں جو اس طرح کے منصوبے کی نشاندہی کر رہی تھیں۔ ہم جانتے تھے کہ امریکہ اور صیہونی حکومت پس پردہ کوئی پلان بنا رہی ہے جس سے مزاحمتی محور کو پے در پے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ پلان ہمیشہ موجود رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ اور لبنان میں ہونے والی پیش رفت کے بعد، ان منصوبوں کا جاری رہنا فطری تھا، ہمارے اپنے ملک اور شام کے سیکورٹی انفارمیشن سسٹم میں ہمارے دوست ادلب اور علاقے کی ان سرگرمیوں سے پوری طرح باخبر تھے اور تمام متعلقہ معلومات بر وقت شامی حکومت اور فوج کو بھی منتقل کر دی گئیں۔

عراقچی نے مزید کہا کہ شامی فوج کی اس حملے کا مقابلہ کرنے میں ناکامی باعث حیرت تھی اور دوسری چیز دہشت گردوں کی برق رفتاری تھی کہ جب میں دوحہ سربراہی اجلاس میں تھا، خطے کے تمام ممالک کا ایک ہی سوال تھا کہ شامی فوج اتنی جلدی کیوں پسپائی اختیار کر گئی اور اس کی مزاحمت اتنی مختصر کیوں ہے اور  حملے کی اس سبک رفتاری نے سب کو حیران کر دیا تھا۔

شامی فوج نفسیاتی جنگ ہار گئی

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ بشار اسد خود جب لاریجانی اور میں نے ان سے ملاقات کی تو وہ بھی حیران رہ گئے اور اپنی ہی فوج کے رویے پر شکایت کی اور یہ بات واضح تھی کہ ان کے پاس حتی شام کی حکومت کے پاس فوج کے بارے میں کوئی مناسب تجزیہ نہیں تھا۔ میرے خیال میں شام کی فوج نے نفسیاتی میدان میں شکست سے دوچار ہوئی۔

انہوں نے واضح کیا کہ ایران اور شام کے درمیان چالیس سالہ تعلقات تین مختلف شعبوں میں رہے ہیں جن میں سے ایک مزاحمت ہے، شام مزاحمتی محور کا ایک اہم رکن ہے اور اس نے محاذ آرائی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فلسطینیوں کے دفاع میں صیہونی رجیم کا دباؤ برداشت کیا ہے اور کبھی بھی اس نظرئے سے پیچھے  نہیں ہٹا، ہمارے تعلقات ہمیشہ قائم رہے ہیں اور ہم نے ہمیشہ مزاحمت کے میدان میں ایک اہم رکن کے طور پر شام کی حمایت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران اور شام کے درمیان رابطے کا دوسرا پہلو داعش کے خلاف جنگ ہے: داعش ایک مقام پر ایک علاقائی اور غیر علاقائی فتنے کے طور پر ابھری اور پہلے عراق اور پھر شام میں پھیل گئی اور بین الاقوامی سطح پر تشویش پیدا کی۔  اس عفریت کے خلاف جنگ میں اہم کردار اسلامی جمہوریہ ایران نے داعش سے نمٹنے میں ادا کیا جو شام اور عراق دونوں کی درخواست پر تھا اور ہم نے ان ممالک میں فوج بھیجی اور یقیناً یہ بنیادی طور پر ہماری اپنی حفاظت کو یقینی بنانا تھا۔ 

ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اگر ہم عراق اور شام میں نہیں لڑتے تو ہمیں ان کے ساتھ ایران میں لڑنا پڑتا، اس لیے ہمیں اپنی سرزمین سے باہر داعش کے ساتھ لڑنا پڑا تاکہ ہمارے ملک میں کم سے کم خطرے کا سامنا کیا جا سکے۔ سچی بات یہ ہے کہ داعش پر فتح بنیادی طور پر شہید قاسم سلیمانی کی کامیابی تھی جنہوں نے داعش کے خلاف آپریشن کی قیادت کی۔

شام پر حالیہ حملے آستانہ عمل کے خلاف تھے

انہوں نے کہا کہ جب داعش کو شکست ہوئی تو ہماری افواج جو شامی حکومت کی درخواست پر وہاں گئی تھیں، شامی حکومت کی درخواست پر دوبارہ واپس آ گئیں، اور ہمارے پاس کوئی دوسری ذمہ داری نہیں تھی، البتہ ہماری کچھ افواج وہاں موجود تھیں جو عسکری مشاورت کے مقصد سے تھیں۔

عراقچی نے کہا کہ شام کے لیے ہماری حمایت کا تیسرا پہلو شام کی حکومت اور  عوام اور مخالفین کے درمیان رابطے سے متعلق ہے۔

 انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ شام کی حکومت کو اپنے مخالفین کے ساتھ بات چیت کرنے کی رہنمائی کی تاکہ ان کے درمیان اختلافات کو دور کیا جا سکے اور ہم نے اس معاملے میں مشورہ اور رہنمائی کی حد تک ان کے ساتھ تعاون کیا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ حالیہ حملے آستانہ اجلاسوں کے عمل کے خلاف تھے، آستانہ عمل کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ تین ضامن ممالک ایران، روس اور ترکی امن کے بعد شام اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی مذاکرات، سیاسی اصلاحات اور آئین میں تبدیلی کے لیے مدد کریں گے۔ اور ہم پچھلے 10 سالوں میں اس سمت میں آہستہ آہستہ آگے بڑھے ہیں اور یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ رفتار توقع کے مطابق نہیں تھی۔

عراقچی نے واضح کیا کہ بشار اسد کی حکومت کے پاس اس معاملے میں  لچک اور رفتار بہت کم تھی۔ شام کے داخلی معاملات، مخالفین کے ساتھ بات چیت یا ممکنہ طور پر ان کا مقابلہ کرنا، یہ خالصتا خود شامی فریق کا معاملہ تھا، اور ہم نے صرف  مشاورت اور رہنمائی کی حد تک ان کی مدد کی۔ یہ دراصل وہ حصہ ہے جو اس وقت مشکل میں ہے، اور شامی فوج نے یہاں اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کیا، اور ہمیں ان کے اندرونی مسائل کے حل کے لیے شامی فوج کی جگہ کبھی نہیں لینی چاہیے تھی۔

شامی حکومت کے مخالفین کئی گروہوں سے ہیں

انہوں نے کہا کہ شام میں ہماری عسکری موجودگی داعش کے خلاف جنگ تھی اور یہ مشن داعش کی شکست کے بعد ختم ہو گیا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارا موقف ہمیشہ شام کی حکومت اور ان کے مخالفین کے درمیان مذاکرات کی حمایت کا رہا ہے۔ شام میں حزب اختلاف کے بعض گروہ اقوام متحدہ کی دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں درج تھے اور حقیقت یہ ہے کہ شامی حکومت کے مخالفین بہت سے مختلف گروہوں سے ہیں۔

عراقچی نے کہا کہ مزاحمت کے کمزور ہونے کا خیال بنیادی طور پر غلط ہے کیونکہ مزاحمت ایک مکتب اور آئیڈیالوجی جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔ حماس اور حزب اللہ دونوں ثابت قدم رہے، اور اسلامی جمہوریہ ایران پوری ہوشیاری اور طاقت کے ساتھ معاملات کی نگرانی کرتا ہے اور ہم مزاحمت اور حزب اللہ کی حمایت جاری رکھیں گے۔

جو کہ شام کے شمال اور جنوب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی مختلف اقسام ہیں۔ 

عراقچی نے کہا کہ کل آستانہ کے اجلاس میں، ہم نے شامی حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مذاکرات کی حوصلہ افزائی کی اور اصرار کیا، اور جو لفظ ہم نے استعمال کیا وہ قانونی اپوزیشن تھا، جس کا مطلب ہے وہ مخالفین جو دہشت گرد گروہوں کا حصہ نہیں ہیں۔" ہمارا موقف ہمیشہ بشار اسد کی حکومت کو شامی اپوزیشن گروپوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی ترغیب دینا رہا ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ شامی فوج کے پیچھے ہٹنے کی رفتار اور طریقہ حیران کن تھا، جب کہ سب کچھ پہلے ہی بتا دیا گیا تھا، حقیقت یہ ہے کہ شامی فوج بالکل مزاحمت نہیں کر سکتی تھی، مجھے یقین ہے کہ یہ نفسیاتی شکست سے دوچار ہوئی۔

 ہم نے کل دوحہ میں آستانہ عمل کا سربراہی اجلاس منعقد کیا، اس دوران جب سعودی عرب، عراق، مصر اور اردن کے وزرائے خارجہ کو بتایا گیا کہ اجلاس جاری ہے تو وہ فورا دوحہ پہنچ گئے، حالانکہ ان کی شرکت ایجنڈے میں نہیں تھی۔ انہوں نے ہمیں آستانہ عمل کے رکن ممالک اور ان 5 ممالک کے درمیان مشترکہ اجلاس منعقد کرنے کو کہا۔ 

خطے کو شام کے ٹوٹنے یا بکھر جانے کی تشویش ہے

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ کل رات ساڑھے آٹھ بجے ان 8 ممالک کی میٹنگ ہوئی۔ اجلاس میں شریک تمام اراکین کی تشویش یہ تھی کہ شام انہدام کی طرف نہ بڑھ جائے، شام اندرونی انتشار کی طرف نہ بڑھے، شام دہشت گردوں کا ذریعہ نہ بن جائے اور داعش دوبارہ لوٹ نہ آئے۔

 عراقچی نے کہا کہ اس اجلاس میں ہم نے شام کی ارضی سالمیت، عدم استحکام، قومی اتحاد اور اس ملک کو دہشت گردوں کی آماجگاہ نہ بننے کی ضرورت پر زور دیا اور ہم نے تنازعات کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ یہ گزشتہ رات ساڑھے آٹھ بجے خطے کے 8 ممالک کی جانب سے کی گئی درخواست تھی لیکن صورت حال بہت تیز سے بدل گئی۔

 انہوں نے کہا کہ ہمیں جاری سازش کا علم تھا، ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ کتنی فوجیں تربیت یافتہ اور منظم ہیں۔ گزشتہ ہفتے جناب بشار الاسد نے اسی موضوع پر گفتگو اور وہ خود اپنی فوج کی صورتحال پر نالاں تھے، وہ فوج میں جنگی مورال کی کمی پر حیران ہوئے۔

 عراقچی نے کہا کہ خطے کی تشویش کل رات اس بیان کی شکل میں سامنے آئی تھی اور یہ تشویش اب بھی موجود ہے اور ہم اس کی نگرانی کر رہے ہیں تاکہ یہ خدشات جیسے فرقہ وارانہ جنگ، خانہ جنگی یا، خدا نہ کرے، شام کے مکمل ٹوٹ جانے یا اسے دہشت گردوں کے مرکز میں تبدیل کرنے کے خدشات درست نہ ہوں۔

انہوں نے صیہونی حکومت کے گولان کے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کے بارے میں کہا کہ مزاحمتی محاذ ایک سال سے زیادہ عرصے سے مشکل وقت سے گزر رہا ہے اور اس نے مثالی مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ غزہ میں اب بھی مزاحمت جاری ہے، صیہونی حکومت قیدیوں کو چھڑا نہیں سکی ہے۔

 عراقچی نے کہا کہ شدید ضربوں کے باوجود لبنانی حزب اللہ تیزی سے خود کو دوبارہ منظم کرنے اور دوسری طرف سے جانی نقصان اٹھانے اور صیہونی حکومت کو فائر بندی پر مجبور کرنے میں کامیاب رہی۔ 

حزب اللہ کی مزاحمت کے باعث صیہونی حکومت نے جنوبی لبنان میں جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی اور وہ جنگ بندی کو قبول کرنے پر مجبور ہوئی۔ مزاحمت ایک تفکر ہے ایک مکتب ہے جس نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔

 ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ لبنان کی حزب اللہ نے اپنے قائد شہید سید حسن نصر اللہ کو کھو دیا لیکن یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ انہیں اس طرح کے مسئلے سے گزرنا پڑا، مزاحمت کا فلسفہ استقامت اور پامردی ہے۔ میرے خیال میں مزاحمت نے اپنا راستہ تلاش کر لیا ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ شام کے بغیر مزاحمت رک جائے گی، یمن کے ساتھ ہمارا رابطہ کیسا ہے؟ کیا غزہ کے ساتھ ہمارا راستے کا رابطہ ہے؟ یمن اور غزہ مزاحمت کر رہے ہیں۔ مزاحمت بہرحال اپنا راستہ خود تلاش کرے گی کیونکہ یہ ایک مثالی جنگ ہے نہ کہ کلاسیکی جنگ، اور اسی وجہ سے مزاحمت کو تباہ نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ یہ محدود ہو جاتی ہے، لیکن آخر کار وہ اپنے ہتھیار خود بنانے اور اپنے راستے پر چلنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ کوئی یہ نہ سوچے کہ جب شام مزاحمت کے محور سے نکل جائے گا تو یہ راستہ رک جائے گا۔ ہرگز نہیں۔

 اگر شامی فوج مزاحمت کرتی تو حلب ہاتھ سے نہ جاتا

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ لبنان کی حزب اللہ کی مزاحمت ایک حقیقت ہے کہ اس کے پاس کافی ہتھیار، سازوسامان اور سہولیات موجود ہیں کہ ایک یا دو سال سے زیادہ مزاحمت کرسکتی ہے اور ایسا نہیں ہے کہ لبنان کی حزب اللہ شام کے بعد کمزور ہو جائے گی۔

 انہوں نے کہا کہ شام میں حالیہ اقدام کی کامیابی کا بنیادی عنصر شامی فوج کا ہتھیار ڈالنا ہے ورنہ مزاحمتی قوتوں نے اپنا کردار ادا کیا، باوجود اس کے کہ ان کے ہاتھ بعض معاملات میں بندھے ہوئے تھے اور انہیں مشکلات کا سامنا تھا، لیکن اگر شامی فوج مزاحمت کرتی تو حلب نہیں گرتا۔

News ID 1928674

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha