مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: حزب اللہ اور صیہونی حکومت کے درمیان سیزفائر کے چند گھنٹے بعد ہی شام میں موجود تکفیری دہشت گردوں نے تحریر الشام (سابقہ جبہۃ النصرہ) کے جھنڈے تلے "فتح المبین اتحاد" کے نام سے قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے ہوئے ادلب سے صوبہ حلب تک پیش قدمی کی۔
اس کرائے کے جتھے کی حلب کے شمال اور شمال مغرب کی طرف تیزی سے پیش قدمی کی وجہ لبنان میں جاری جنگ کے باعث ادلب کے جنوبی حصے میں حزب اللہ کی آپریشنل توجہ میں کمی ہے۔ نیز دوسری طرف روسی فوج یوکرین جنگ کی وجہ سے لطاکیہ کے جنوب مشرق میں واقع حمیم بیس سے اپنی بہت سی فوجی تنصیبات کو خالی کرنے اور ادلب-حلب کے قریب کچھ فوجی علاقوں سے انخلاء پر مجبور ہوئی ہے۔ اس صورت حال سے دشمن نے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پرانے مہروں کو اس بار خلیفہ اردگان کی مدد سے میدان میں اتارا ہے۔
اس کے علاوہ لبنانی محاذ پر حالیہ پیش رفت کی وجہ سے اسرائیل نے ترکی اور شامی باغیوں کو ادلب پر حملے کی ترغیب دی جس کا مقصد دمشق پر مزاحمتی محور کی حمایت سے دستبردار ہونے اور حزب اللہ کے ہتھیاروں کی سپلائی لائن کو منقطع کرنے کے لئے دباؤ بڑھانا ہے۔
ایسی کشیدہ صورت حال میں یہ سوال منہ کھولے کھڑا ہے کہ کیا نام نہاد شامی اپوزیشن دمشق میں پھر سے خانہ جنگی کے ذریعے اپنے مفادات کے درپے ہے یا پھر بیرونی طاقتیں ان تکفیری مہروں کو استعمال کرتے ہوئے شام سے اپنے مطالبات منوانا چاہتی ہیں؟
حلب میں کیا ہورہا ہے؟
شامی رائے عامہ کے لیے "حلب" خانہ جنگی کے دوران مسلح اپوزیشن پر شامی فوج کی حتمی فتح کی علامت ہے۔
صنعتی حب ہونے کے علاوہ، 20 لاکھ کی آبادی والا یہ اقتصادی مرکز عرب مشرق کو بحیرہ روم سے جوڑنے کے لیے ایک اسٹریٹجک مواصلاتی مقام رکھتا ہے۔
یہ مسلح فتنہ حلب اور دمشق کے درمیان رابطہ منقطع کرنے کے لیے کچھ علاقائی اداکاروں کی منصوبہ بندی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
اس وقت مسلح دہشت گرد حلب کے 20 محلوں، النبل، الزہرہ جیسے علاقوں اور ابو ظہر ہوائی اڈے پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
تاہم شامی فضائیہ نے بھرپور جوابی حملے کے ذریعے بعض مقبوضہ علاقوں کو واگزار کرا لیا ہے۔
اس دوران شامی فوج کی طرف سے شائع ہونے والی خبر کے مطابق 500 سے زائد دہشت گرد ہلاک اور درجنوں گرفتار کر لئے گئے ہیں۔
اگرچہ تحریر الشام کے دہشت گرد صوبہ حلب کے مرکزی علاقوں کی طرف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ عمل سست پڑ گیا ہے اور وہ گزشتہ دو دنوں کی طرح پیش قدمی جاری نہیں رکھ سکتے۔ لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا مسلح مخالفین اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس سپورٹ کے بغیر مقبوضہ علاقوں پر قبضہ برقرار رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟
یا پھر 2018 کی شکست کی طرح عالمی طاقتوں کے اشاروں پر صیہونی رجیم کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے مزید خون خرابہ کرکے ملک میں انارکی پھیلائیں گے!
صیہونی رجیم کے ساتھ بعض علاقائی قوتوں کا گٹھ جوڑ
کچھ علاقائی کھلاڑی شامی دہشت گردوں کی مالی اور فوجی حمایت کر رہے ہیں جو حلب کے واقعات کے ذمہ داروں میں سرفہرست ہیں۔
موجودہ صورتحال میں شام کے بعض ہمسایہ ممالک نے موجودہ فتنے کو ہوا دینے کے لئے ایک آپریشن روم بھی بنا لیا ہے۔ دریں اثنا، سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ترکی نے اپنی سرحدیں کھول کر درحقیقت ازبک اور ترکستانی عناصر کے لیے میدان جنگ میں داخل ہونے کا راستہ اور شام میں خونریزی کے لیے میدان فراہم کر دیا ہے۔ اگرچہ مسلح مخالفین اور ان کے اتحادی دہشت گردوں نے اس جنگ کا ابتدائی ہدف حلب، حما، ادلب وغیرہ پر قبضہ کرنا قرار دیا تھا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس مسلح جارحیت کا اصل ہدف مزاحمتی محور کو شام کی سرزمین سے پیچھے دھکیل کر اس کا حزب اللہ سے رابطہ توڑنا ہے۔
نتیجہ
صیہونی حکومت نہ صرف مزاحمتی محور کے خلاف "ڈیٹرنس" کی بحالی کے لیے کوشاں ہے بلکہ وہ مشرقی عرب خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے اور مغربی ایشیا کے سیکورٹی آرڈر کو ازسرنو متعین کرنے کا مذموم منصوبہ رکھتی ہے۔
بنیادی طور پر غزہ، لبنان، شام، عراق، یمن، شمالی بحر ہند اور یہاں تک کہ مشرقی بحیرہ روم کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لئے بغیر خطے کی موجودہ ترتیب کو بدلنے کے اس اسرائیلی منصوبے پر غور نہیں کیا جا سکتا۔
آپ کا تبصرہ