مہر نیوز کے مطابق، فرانس کے سابق صدر ڈومینیک ڈی ویلپین نے غزہ کی صورتحال کو "سب سے بڑا تاریخی المیہ" قرار دیتے ہوئے فرانس کے موقف پر تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ غزہ بلاشبہ سب سے بڑا تاریخی اور جمہوریت کے لحاظ سے ایک حقیقی المیہ ہے۔ یہ سب کس کے نام پر؟ جنگ کے نام پر۔ 'آہ، یہ جنگ ہے، یہ ایسی ہی ہے۔' لیکن غزہ میں عام شہری اس کا شکار ہیں، یہ ہمارے لئے مضحکہ خیز ہے اور فرانس خود کو مٹا رہا ہے، آج ہماری بین الاقوامی منظر نامے میں کوئی آواز نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل گذشتہ اکتوبر سے غزہ کی محصور پٹی میں 41000 سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے۔ یہ جارحانہ حملے اور وحشیانہ جرائم بڑے پیمانے پر تباہی، نقل مکانی، خوراک کی قلت، اور بیماری کے پھیلاؤ کا باعث بنے ہیں۔
2005ء سے 2007ء تک فرانس کے صدر رہنے والے ڈومینیک ڈی ویلپین نے شہریوں کے قتل عام پر تنقید کرتے ہوئے کہا لہ غزہ میں جسم، دل، روح اور سر سب"ٹکڑے ٹکڑے" کر دئے گئے۔
انہوں نے اسرائیل پر تنقید کی کہ اس نے محصور پٹی پر دوبارہ قبضے کے لیے حالات پیدا کیے، جہاں سے وہ 2005 میں پیچھے ہٹ گیا تھا۔
فرانسیسی صدر نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ پر دوبارہ قبضہ کر لیا... غزہ مکمل طور پر محصور ہے۔ ایک ایسے لمحے میں جہاں مغربی کنارے بھی کشیدگی چل رہی ہے جیسا کہ ہم اسے مغربی کنارے کے شمال میں اور مغربی کنارے کے جنوب میں دیکھ رہے ہیں، ہمیں ایک حقیقی ٹائم بم کا سامنا ہے۔
انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ فرانس اور یورپ تنازعات کو حل کرنے کے لیے ممکنہ طور پر کیا مدد کر سکتے ہیں؟ کہا کہ ان کے پاس اسلحہ سازی اور معیشت کے حوالے سے لیور ہیں، (جس سے تنازعات کی روک تھام ہوسکتی ہے)۔
آپ کا تبصرہ