مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے صدر حجۃ الاسلام ابراہیم رئیسی نے آج شام کو "اسلامی ممالک کے سفیروں " سے ملاقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ پرہیزگاری کو تقویت دینے کا مہینہ ہے اور قرآن کریم کی نورانی آیات تمام انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہیں۔ لیکن خواہشات نفسانی کچھ لوگوں کو قرآنی کی حیات بخش دعوت کو قبول کرنے سے روکتی ہیں۔
انہوں نے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کے فروغ کو اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم اور بنیادی محور قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے تمام پڑوسیوں اور اسلامی ممالک کے تعاون کا گرمجوشی سے استقبال کرتا ہے اور ہماری خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح اسلامی ممالک کے ساتھ مشترکہ مفادات کے فروغ کے لئے تعمیری تعامل پر مبنی ہے۔
ایرانی صد نے خطے اور اسلامی ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ غیر ملکیوں کی مداخلت کو قرار دیتے ہوئے کہا: اگر یہ خود اسلامی ممالک پر منحصر ہوتا تو وہ علاقائی مسائل حتیٰ غیر علاقائی مسائل بھی آسانی سے حل کر سکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ بیرونی طاقتیں اسلامی ممالک کے مفادات کو اپنی پالیسیوں، نظریات اور مفادات کی بھینٹ چڑھاتی ہیں اور وہ کبھی بھی اسلامی ممالک کے مسائل کے حل کے بارے میں نہیں سوچتیں۔
انہوں نے مغربی ممالک کی استکباری سوچ کو خود پسندی کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مغربی استکبار کا بنیادی ہدف خطے اور اسلامی ممالک پر تسلط جمانا ہے تاکہ یہ ممالک اس کی اجازت کے بغیر کچھ نہ کر سکیں۔
مغربی سامراجی ممالک نہیں چاہتے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں وہ اسلامی ممالک کی حقیقی قربت کو کسی طرح بھی برداشت نہیں کرتے لہذا وہ مسلمان ممالک کے درمیان اختلاف اور نفرت پیدا کرنے کے ساتھ دہشت گردی کی سرپرستی کرتے ہیں، جب کہ اسلامی ممالک کا مفاد ایک دوسرے کے ساتھ حقیقی تعاون اور تعامل میں مضمر ہے۔
صدر رئیسی نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر خدا کی روشن آیات پر بھروسہ کرتے ہوئے اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم ہوتا تو آج فلسطین اور غزہ میں ہم اس قدر ظلم و جبر، وحشت و بربریت اور نسل کشی کا مشاہدہ نہ کرتے؟
انہوں نے کہا کہ تاریخ میں،خواتین اور بچوں کے خلاف اس قدر ظالمانہ اور وحشت ناک جرائم کا سراغ نہیں ملتا۔
ایرانی صدر نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ فلسطین کو 7 اکتوبر کے واقعات سے جوڑ کر دیکھنا سراسر غلط تجزیہ ہے، بلکہ مسئلہ فلسطین کا درست تجزیہ یہ ہے کہ یہ صیہونیوں کی 75 سالہ جارحیت اور غاصبانہ قبضے کا ردعمل ہے۔ لہذا مسئلہ فلسطین کا درست تجزیہ کیا جائے۔ آج مسلمانوں کے درمیان ہونے والے مکالمے میں ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان تمام جرائم کے سلسلے میں ہمارا اسلامی فریضہ کیا ہے اور کیا اس مسئلے کا حل اسلامی اتحاد، ہم آہنگی، تعاون اور صحبت کے سوا ممکن ہے؟ ہرگز نہیں۔
انہوں کہا کہ انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس تمام تر عصمت دری اور قتل و غارت گری کے پیچھے امریکیوں اور بعض مغربی ممالک ہیں جن کی حمایت سے یہ نسل کشی جاری ہے۔
صدر رئیسی نے کہا کہ امریکہ اور یورپ کی یہ شرمناک حمایت ان کے استعماری روئے اور جابرانہ تسلط کی واضح مثال ہے جو صرف اپنے مفادات کی خاطر دوسروں سے جینے کا حق چھینتے ہیں اور وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ