مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے اطلاع دی ہے کہ شمالی مضافات میں واقع شہر ماری کے مشرق میں العیون گاؤں میں ترک فوجی اڈے پر زوردار دھماکے کی آواز سنی گئی۔
حلب کے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے مزید کہا کہ دھماکے کے نتیجے میں اس جگہ میں آگ لگ گئی اور ابھی تک دھماکے کی وجوہات یا انسانی جانی نقصان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
مقامی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ حلب کے شمالی علاقے عزاز کے ماری قصبے کے مضافات میں واقع العیون گاؤں میں ترکیہ کے فوجی اڈے پر ایک زوردار دھماکہ ہوا۔
"المیادین" چینل کے رپورٹر نے شام سے خبر دی ہے کہ "حلب کے شمالی رف میں واقع عزاز علاقے کے ماری قصبے کے مضافات میں واقع العیون گاؤں میں ترک فوجی اڈے پر ایک زوردار دھماکہ ہوا۔"
گزشتہ سال کے موسم خزاں میں ترک صدر رجب طیب اردگان نے دعویٰ کیا تھا کہ شمالی شام میں ترکیہ کی فوجی کارروائیاں صرف فضائی حد تک محدود نہیں رہیں گی۔
انہوں نے 22 نومبر کو ان تمام عناصر کو جلد از جلد ختم کرنے کا عزم بھی کیا جنہیں وہ شمالی شام میں ٹینکوں اور جنگی دستوں کے ساتھ دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ ترک فضائی آپریشن، جسے "پنجہ شمشیر" کا نام دیا گیا ہے، استنبول میں ایک مہلک بم دھماکے کے ایک ہفتے بعد ہوا ہے جس میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
ترک حکومت نے اس کا الزام کرد ملیشیا گروپوں پر عائد کیا، تاہم انہوں نے بم دھماکے میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔
ترکیہ کی کارروائیوں اور شام پر زمینی حملے کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک خطرناک مہم جوئی ہو گی جس کے اردگان کی حکومت اور اس کی فوج پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور یہ ترکیہ کے لیے شکست و ریخت کی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے اور اردگان کے تمام خواب چکنا چور ہو سکتے ہیں اور جسٹس ترقی پارٹی کو شکست سے دوچار ہونا پڑے گا۔
دوسری جانب بعض تجزیہ کار شمالی شام میں ترکیہ کی زمینی کارروائیوں کو اردگان اور اس کی فوج کو گھسیٹنے کے لیے امریکہ کی طرف سے ایک جال قرار دیتے ہیں، خاص طور پر چونکہ امریکہ اپنے مقاصد اور مفادات حاصل کرنے کے لیے کسی بھی اقدام سے دریغ نہیں کرتا۔
اس سے پہلے اقوام متحدہ میں شام کے مستقل نمائندے نے اپنے ملک کی سرزمین میں امریکہ اور ترکیہ کی غیر قانونی موجودگی پر بات کی تھی۔
اس رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ میں شام کے مستقل نمائندے نے تاکید کی: ہم شام میں اپنی سرزمین میں امریکہ اور ترکیہ کی غیر قانونی موجودگی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ شام میں ترک اور امریکی افواج کی موجودگی دمشق حکومت کی درخواست پر نہیں تھی اور اس لیے اس کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ اس شامی عہدیدار نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہا: شام کی حکومت اور فوج اپنی تمام سرزمین کو تکفیری دہشت گردوں سے آزاد کرانے کے لیے پرعزم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ تمام مقبوضہ علاقوں کی آزادی تک جاری رہے گی۔
اقوام متحدہ میں شامی مندوب نے یاد دلایا: مغربی ممالک نے حال ہی میں دمشق میں شامی فوج پر دہشت گردانہ حملے کی مذمت کے لیے روس کی طرف سے تجویز کردہ بیان کے مسودے کی منظوری سے روک دیا۔ مغرب والوں کے اس اقدام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ان کے دوہرے معیار کو ایک بار پھر واضح کر دیا ہے۔
آپ کا تبصرہ