مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی نے بدھ کے روز کابینہ کے اجلاس کی سائڈ لائنز پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون معمول کے مطابق جاری ہے، خاص طور پر موجودہ حالات میں کہ جہاں سامراجی میڈیا ملک کو بدنام کرنے کے لیے نفسیاتی اور جارحانہ حربے استعمال کر رہا ہے اور ایجنسی کے ساتھ ہمارے تعلقات کو تاریک ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاہم گزشتہ دو مہینوں کے دوران ایجنسی کے ساتھ ماہرین اور تکینکی اہلکاروں کی سطح پر ملاقاتیں ہوئیں اور گزشتہ دو ہفتوں میں ایجنسی کے وفود تہران آئے اور آپس میں تبادلہ خیال ہوا۔
اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں سینٹری فیوجز کے ڈیزائن اسٹیٹمنٹ پر عدم تعمیل یا ذرات کی موجودگی کا اعلان کیا گیا تھا، اسلامی نے کہا کہ یہ کیس آئی اے ای اے کے انسپکٹرز کی تحقیقات کے بعد حل ہو گیا ہے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ کوئی خاص انحراف نہیں تھا۔
ایران اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ نے کہا کہ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کچھ لوگ یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ ہم نے اپنی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں آئی اے ای اے کے سوالات کا جواب نہیں دیا، تاہم اس معاملے پر بھی بات ہوئی اور ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی ایک یا دو روز میں تہران کا دورہ کریں گے۔
اسلامی نے تقریباً 84 فیصد تک افزودہ یورینیم کے ذرات کی رپورٹ کا حوالہ دیا اور اس بات پر زور دیا کہ یہ مسئلہ ایک ایسے ذرے کے نمونے لینے سے متعلق ہے جسے خوردبین سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا تاہم جو چیز اہم ہے وہ پیداوار کے بعد ذخیرہ ہونے والے مواد کی مقدار ہے جسے ایجنسی کے انسپکٹرز نے مشاہدہ کیا اور اس بات کا یقین حاصل کیا کہ 60% سے زیادہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران پر الزامات 20 سال سے لگائے جا رہے ہیں جبکہ مذاکرات جے سی پی او اے دستاویز میں بدل چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جے سی پی او اے پر دستخط کرنے کی وجہ ایسے الزامات تھے۔ چونکہ معاہدے پر دستخط کنندگان نے اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا، اس لیے ایجنسی کا یہ لکھنا فطری سی بات ہے کہ اس کی نگرانی ماضی کی طرح نہیں ہے تاہم اس یہ مطلب نہیں کہ اس کی ایران کی جوہری سرگرمیوں پر کوئی نگرانی نہیں ہے۔
آپ کا تبصرہ