مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا 5 جمادی الاولی سن 5 یا 6 ہجری کو مدینہ منورہ میں خاندان نبوت و ولایت اور عصمت کے گھر پیدا ہوئیں ۔ آپ پیغمبر اسلام حضرت محمد (ص) کی نواسی، حضرت علی (ع) کی بیٹی اور حضرت فاطمہ (س) کی لخت جگر ہیں۔
پیغمبر اسلام (ص) سفر پر تھے واپسی پر حسب معمول سب سے پہلے فاطمہ (س) کے گھر تشریف فرما ہوئے اہل خانہ کو سلام اور نو مولود کی مبارک باد پیش کی، رسول اسلام کو دیکھ کر سب تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے اور حضرت علی (ع) نے بیٹی کو ماں کی آغوش سے لے کر نانا کی آغوش میں دے دیا ۔ بچی کو دیکھ کررسول خدا نے گریہ کرنا شروع کردیا ۔ کسی کے دریافت کرنے پر رسول کریم نے ارشاد فرمایا کہ: جبرائیل امین نے مجھے بتایا ہے کہ میری یہ بیٹی کربلا کے روح فرسا مصائب میں میرے حسین کے ساتھ برابر کی شریک ہو گی۔
اس کے بعد آپ نے وہاں موجود لوگوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ: یہ میری بچی خدیجہ کبری کی ہوبہو تصویر ہے۔
روایت میں ہے کہ نبی اکرم نے پیار کیا اور کچھ دیر تامل کے بعد فرمایا :خدا نے اس بچی کا نام " زینب" منتخب کیا ہے۔
اس لیے کہ زینب کے معنی ہیں باپ کی زینت جس طرح عربی زبان میں " زین " معنی زینت اور "اب"معنی باپ کے ہیں یعنی باپ کی زینت ہیں ۔ رسول خدا (ص) حضرت زینب کو اپنے سینہ اقدس سے لگایا اور اپنا رخسار مبارک زینب بنت علی کے رخسار پر رکھ کر اتنا گریہ کیا کہ آپ کے آنسو چہرہ مبارک پر جاری ہوگئے کیونکہ پیغمبر اسلام (ص) حضرت زینب (س) پر آنے والے مصائب سے آگاہ تھے ۔
حضرت زینب (س) کے مشہور القاب درج ذیل ہیں:
۱- عالمہ غیر معلمہ، ۲- ثانی الزھراء ۳- عقیلہ بنی ہاشم، ۴- نائبۃ الحسین، ۵- صدیقہ صغری، ۶- محدثہ، ۷- زاہدہ، ۸- فاضلہ، ۹- شریکۃ الحسین، ۱۰- راضیہ بالقدر والقضاء
حضرت زینب (س) کا بچپن فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گزرا جو اپنی تمام جہتوں سے کمالات میں گھرا ہوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کا سایہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محیط تھیں رسول اسلام (ص) نے انہیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے زینب کی فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں ۔
نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات نے انھیں علم و حکمت کی غذا سے سیر کیا ، عصمت کبری فاطمہ زہرا نے انہیں ایسی فضیلتوں اور کمالات کے ساتھ پرورش فرمائی کہ جناب زینب تطہیر و تزکیہ نفس کی تصویر بن گیئں ۔ اسی کے ساتھ ساتھ حسنین شریفین نے انھیں بچپن ہی سے اپنی شفقت آمیز توجہ کا شرف بخشا جو زینب کی پاکیزہ تربیت کی وہ پختہ بنیادیں بنیں جن سے اس مخدومہ اعلی کا عہد طفولیت تکمیل انسانی کی ایک مثال بن گیا۔
امام سجاد (ع) نے حضرت زینب (س)کے علمی مقام کو بین کرتے ہوئے فرمایا:
اَنْتِ بِحَمدِ اللّهِ عالِمَةٌ غَیرَ مُعَلَّمَة وَ فَهِمَةٌ غَیرَ مُفَهَّمَة
اے پھوپھی اماں، آپ الحمد للہ ایسی خاتون ہیں کہ جسکو کسی نے پڑھایا نہیں ہے، اور آپ فہم و فراست کی حامل ہیں۔
فضیلتوں اور کرامتوں سے معمور گھر میں رسول اسلام اور علی و فاطمہ کی مانند عظیم ہستیوں کے دامن میں زندگی بسر کرنے والی حضرت زینب کا وجود تاریخ بشریت کا ایک غیر معمولی کردار بن گیا، کیونکہ امام کے الفاظ میں اس عالمہ غیر معلمہ اور فہیمہ غیر مفہمہ نے اپنے بے مثل ہوش و ذکاوت سے کام لیکر، عصمتی ماحول سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور الہی علوم و معارف کے آفتاب و ماہتاب سے علم و معرفت کی کرنیں سمیٹ کر خود اخلاق و کمالات بکھیرتا چراغ بن گئیں ۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے واقعہ کربلا کو اجاگر کرنے اور زندہ رکھنے میں اہم اور اساسی کردار ادا کیا ،کوفہ میں ابن زياد کے دربار اور شام میں یزید ملعون کے دربار میں آیات قرآنی پر مبنی عالمانہ خطبات آپ کی علمی قوت کامظہر ہیں۔ آپ نے اپنے والد حضرت علی علیہ السلام اور والدہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے احادیث بھی نقل کی ہیں۔علاوہ ازیں والد ماجد امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خلافت کے دور میں کوفی خواتین کے لئے آپ کا درس تفسیر قرآن بھی حضرت زينب سلام اللہ علیہا کی دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔حضرت زينب سلام اللہ علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی و زہراءعلیہما السلام کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ صحابیۃ الرسول(ص) تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت و بیان حدیث کے رتبے پر فائز تھیں چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ امام سجاد علیہ السلام آپ کی علمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : انت عالمہ غیر معلمہ فہمۃ غیر مفہمہ
حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کی فصاحت و بلاغت کا شاہکار ان کے خطبوں سے نظر آتا ہے مخصوصا جو خطبہ ابن زیاد کی مجلس میں آپ نے دیا اس سے مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی انگشت بہ دنداں ہوئے تھے اور یہ کہتے ہوئے نظر آرہے تھے کی آج علی ابن ابی طالب علیہ السلام زندہ ہو کر خطبہ دے رہے ہیں ۔
حضرت زینب كبری سلام اللہ علیہا راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں کبھی بھی تہجد کو ترک نہيں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کہلائیں۔ آپ کی شب بیداری اور نماز شب دس اور گیارہ محرم کی راتوں کو بھی ترک نہ ہوئی۔ خدا کے ساتھ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا ارتباط و اتصال کچھ ایسا تھا کہ امام حسین علیہ السلام نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا: یا اختي لا تنسيني في نافلة الليل"ترجمہ: میری بہن! نماز شب میں مجھے مت بھولنا ۔
کاروان حسینی کی مدیریت و سرپرستی واقعہ عاشورا کے بعد آپ کے دوش پر تھی اور امام حسین علیہ السلام نے آخری وداع میں اسی صلاحیت اور مدیریت کے پیش نظر اہل حرم کو آپ کے سپرد کیا تھا۔
حضرت زینب (س) نے کئی مواقع پر امام سجاد علیہ السلام کی جان بچائی اور دشمنوں کے شر سے اس آفتاب امامت کو غروب ہونے سے بچایا ۔
حضرت زینب نے یزید کو مخاطب کرتے ہوئے بھرے دربار میں فرمایا تھا:
اے یزید، دنیا کی زندگی بہت ہی مختصر ہے اور تیری دولت اور عیش و عشرت کی زندگی اسی طرح ختم ہو جائے گی جس طرح ہماری دنیوی مصیبتیں اور مشکلیں ختم ہو جاتی ہیں مگر کامیابی و کامرانی ہمارے ساتھ ہے کیونکہ حق ہمارے ساتھ ہے۔
امام حسین کی شہادت کے بعد دراصل حضرت زینب نے حسینی پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانا ایک دینی و الہی فریضہ تصور کیا اور اپنی خداداد فصاحت و بلاغت اور بے نظیر شجاعت و شہامت کے ذریعے ظلم و ستم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ حضرت زینب (س) نے اپنی پاک و پاکیزہ زندگی کے دوران اہل بیت پیغمبر کے حقوق کا دفاع کیا اور کبھی اس بات کی اجازت نہ دی کہ دشمن، واقعہ کربلا سے ذاتی فائدہ اٹھا سکے ، جناب زینب کے خطبوں کی فصاحت و بلاغت اور انداز بیاں سے لوگ آپ کے بابا علی مرتضی کو یاد کرتے تھے۔
اس عظیم خاتون نے الہی حقائق ایسے فصیح و بلیغ الفاظ میں بیان کیے جو ان کے عالمہ غیر معلمہ ہونے اور قرآن و سنت پر کامل دسترس پیدا کر لینے کو ظاہر کرتے تھے۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے اپنی قوتِ گفتار کے ذریعے کوفہ و شام میں ہر بولنے والے کو خاموش کروا دیا اور اپنے خطبوں کے ذریعے امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت اور اہل بیت رسول(ص) کی عظمت کو دنیا تک پہنچایا اور یزید اور اس کی طرح کے موجودہ اور سابقہ ظالم حکمرانوں کی منافقت اور اسلام دشمنی کا پول دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ یہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے کوفہ و شام میں دیئے گئے خطبے ہی تھے کہ جنہوں نے یزیدی حکومت کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا اور یزید ملعون جیسا دشمن اسیران کربلا کو واپس مدینہ بھیجنے پر مجبور ہو گیا۔
امام حسین علیہ السلام کی المناک شہادت کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی آنکھوں سے نہ تو کبھی آنسوؤں کا بہنا رکا اور نہ ہی ان کے گریہ میں کوئی کمی آئی اور نہ کربلا اور کوفہ و شام میں لگنے والے دل کے زخم محو ہوئے۔
روایت میں ہے کہ جب حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے مدینہ سے شام کا سفر کیا تو راستے میں اس درخت کے پاس سے گزریں کہ جس پر ظالموں نے اسیران کربلا کا قافلہ لاتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کا سر اقدس لٹکایا تھا اس درخت کا دیکھنا تھا کہ وہ تمام مصائب پھر سے آنکھوں کے سامنے آ گئے کہ جن کو حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے دیکھا تھا اور کربلا کے دیے ہوئے تمام زخم دوبارہ ہرے ہو گئے اور واقعہ کربلا کے ڈیڑھ سال بعد دمشق کے قریب 15رجب 62 ہجری کو اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔
آپ کا تبصرہ