مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: 7 اکتوبر 2023 کو غزہ میں شروع ہونے والی صہیونی حکومت نے نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا، جس میں ہزاروں خواتین، بچے اور بزرگ شہید ہوئے۔ اسرائیلی افواج نے سویلین تنصیبات، اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گاہوں کو تباہ کر کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔
اس ظلم کے خلاف فلسطینی مجاہدین نے شدید مزاحمت کی، جس نے اسرائیلی فوجی منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ وزیر اعظم نتن یاہو اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا، جس میں جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے اور غزہ کی انتظامیہ کی منتقلی جیسے نکات شامل تھے۔ حماس نے اس منصوبے پر اتفاق کرتے ہوئے مذاکرات میں سنجیدگی دکھائی اور فلسطینی عوام کے تحفظ کو ترجیح دی۔
اس سلسلے میں حماس نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے نتیجے میں ایک معاہدہ طے پاگیا ہے، جس کا مقصد غزہ کے خلاف جاری دو سالہ امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی جنگ کا خاتمہ ہے۔ یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیے گئے 20 نکاتی امن منصوبے کی بنیاد پر طے پایا۔
جنگ بندی اور مقاومتی تنظیموں کے درمیان ہماہنگی
بیان کے مطابق معاہدے میں غزہ پر جنگ کا خاتمہ، اسرائیلی افواج کا انخلاء، انسانی امداد کی فراہمی اور اسرائیلی قیدیوں کے بدلے فلسطینی اسیران کی رہائی شامل ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس معاہدے سے قبل حماس نے دیگر فلسطینی مزاحمتی دھڑوں کے ساتھ ذمہ دارانہ اور سنجیدہ مشاورت کی، تاکہ قومی مفادات اور عوامی تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔
حماس نے واضح کیا کہ اس معاہدے میں اس کی شمولیت کا مقصد فلسطینی عوام کے خلاف جاری نسل کشی کو روکنا اور غزہ سے اسرائیلی قبضے کا مکمل خاتمہ ہے۔
مذاکرات کا آغاز اس وقت ہوا جب حماس نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر مثبت ردعمل دیا، جس میں قیدیوں کے تبادلے اور غزہ کا انتظام ایک غیر جانبدار فلسطینی ادارے کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کی گئی۔ اس پیش رفت کو خطے کی مزاحمتی تحریکوں نے سیاسی طور پر دانشمندانہ اور متوازن قرار دیتے ہوئے سراہا ہے۔
قیدیوں کے تبادلے کے لیے حماس کی جانب سے فہرست پیش
حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم ناموں پر حتمی اتفاق کے منتظر ہیں، اور جیسے ہی متعلقہ طریقہ کار اور تفصیلات مکمل ہوں گی، قیدیوں کی فہرست کو عوام کے سامنے قیدیوں کے میڈیا دفتر کے ذریعے پیش کیا جائے گا۔
تاہم، حماس نے اسرائیل کی جانب سے ممکنہ وعدہ خلافی پر سخت انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ تل ابیب نے ماضی میں، خصوصاً 2023 اور رواں سال جنوری میں اسی نوعیت کے معاہدوں کو توڑا ہے۔ اس لیے اس بار معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے سخت نگرانی اور دباؤ ضروری ہے۔
تنظیم نے واضح کیا کہ کسی بھی معاہدے پر عملدرآمد اس وقت ممکن ہے جب اس کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔ اسی تناظر میں حماس نے امریکہ اور دیگر قریبی اتحادیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو معاہدے سے فرار یا تاخیر کی اجازت نہ دیں۔
دوسری جانب غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ معاہدے کے اعلان کے بعد کسی بھی علاقے میں نقل و حرکت سے گریز کریں جب تک کہ سرکاری سطح پر مکمل حفاظتی ہدایات جاری نہ کی جائیں۔
دفتر نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ رشید اور صلاح الدین سڑکوں پر شمال سے جنوب یا جنوب سے شمال کی طرف، یا ان کے اطراف میں، اس وقت تک سفر نہ کریں جب تک کہ شہریوں کی سلامتی یقینی ہونے سے متعلق سرکاری ہدایات جاری نہ ہوجائیں۔
اہداف کے حصول میں نتن یاہو کی ناکامی
7 اکتوبر 2023 کو غزہ کی مزاحمتی تحریک کے تاریخی آپریشن طوفان الاقصی کے بعد کے بعد اسرائیل نے غزہ پر بے مثال اور مہلک حملے شروع کیے، جن میں اب تک 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ حملوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ بھی کیا، جسے انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھوک کو ہتھیار بنانے کی پالیسی قرار دیا۔
اس پوری جنگی مہم کو امریکہ کی ریکارڈ سطح کی سیاسی، عسکری اور انٹیلیجنس حمایت حاصل رہی۔ واشنگٹن نے اسرائیل کو اربوں ڈالر کے مہلک ہتھیار فراہم کیے اور اقوام متحدہ میں نسل کشی روکنے کی تمام قراردادوں کو ویٹو کر دیا۔ دوسری جانب، حماس نے بارہا امن کی کوششیں کیں، جن میں قیدیوں کی رہائی کی ضمانت بھی شامل تھی۔ تاہم، صہیونی حکومت نے صرف ابتدائی جنگ بندی پر عمل کیا اور اس کے بعد نسل کشی کو منظم انداز میں بڑھایا۔
متعدد ذرائع، جن میں خود اسرائیلی حکام بھی شامل ہیں، نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نیتن یاہو نے جنگ کے خاتمے کے لیے جاری مذاکرات کو جان بوجھ کر سبوتاژ کیا۔
صہیونی سازشوں کی ناکامیوں پر غزہ کے عوام کو مبارک باد
حماس نے اپنے بیان میں غزہ کے عوام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے صہیونی نسل کشی کے سامنے غیر متزلزل استقامت دکھا کر اسرائیل کو اپنے بنیادی مقاصد کے حصول میں ناکام بنادیا۔
بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل کا مقصد غزہ پر مکمل قبضہ اور دو ملین سے زائد فلسطینیوں کو بے دخل کرنا تھا، مگر فلسطینی عوام نے غیر معمولی جرات، عزت اور قربانی کی مثالیں قائم کرکے ان فاشسٹ منصوبوں کو ناکام بنادیا۔
حماس کے سیاسی بیورو کے رکن عزت الرشق نے جنگ بندی کے معاہدے کو فلسطینی عوام کی عظیم قربانیوں اور مزاحمت کی طاقت کا ثمر قرار دیا اور کہا کہ یہ جنگ بندی ایک قومی کامیابی ہے، جو ہماری قوم کے اتحاد اور مزاحمت سے وابستگی کی علامت ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ حماس مذاکرات میں شریک ضرور ہوئی، مگر فلسطینی حقوق کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ جو اسرائیل نسل کشی اور بھوک سے حاصل نہ کر سکا، وہ مذاکرات سے بھی حاصل نہیں کرسکے گا۔
حماس کے ترجمان جہاد طہ نے بھی فلسطینی دھڑوں کی متحدہ پوزیشن کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس اتحاد نے اسرائیلی حکومت کو مزید مایوسی کا شکار کردیا ہے۔
آپ کا تبصرہ