مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: چین کے تاریخی دورے کے دوران ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے شنگھائی تعاون تنظیم اور دیگر فورمز پر امریکہ اور یورپی ممالک کے ایران مخالف اقدامات اور اسنیپ بیک میکانزم کے خلاف ایرانی موقف کو اجاگر کیا؛ امریکہ اور اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کی اور انصاف اور سفارتکاری پر مبنی کثیرالقطبی عالمی نظام کے قیام کا مطالبہ کیا۔
صدر پزشکیان کا موجودہ سرکاری دورہ چین ان کی صدارت کی سب سے اہم بین الاقوامی مصروفیات میں سے ایک ہے۔ صدارت سنبھالنے کے بعد پزشکیان نے بار بار اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ کثیرالجہتی سفارتکاری کو مضبوط کریں گے، بیرونی دباؤ کے مقابلے میں ایران کی خودمختاری کا تحفظ کریں گے اور علاقائی و عالمی مسائل کے پرامن حل کو فروغ دیں گے۔ امریکہ و اسرائیل کی حالیہ عسکری جارحیت کے پیش نظر، صدر پزشکیان کے چین کا یہ دورہ اسٹریٹجک اہمیت کا حامل تھا۔
صدر مسعود پیزشکیان نے بیجنگ اور تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم کی 25ویں سربراہی اجلاس اور شنگھائی پلس اجلاس میں شرکت کی۔ ان اجلاسوں نے تہران کو عالمی رہنماؤں سے بات چیت کرنے، ایران کے موقف کی وضاحت کرنے اور مغربی یکطرفہ رویوں کے خلاف اپنا موقف پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ صدر پزشکیان کا یہ دورہ صرف رسمی ملاقات نہیں بلکہ ایران کے عالمی میدان میں فعال کردار اور امن و انصاف کے لیے عزم کا پیغام تھا۔
دورے کا پس منظر
صدر پزشکیان کی تیانجن میں آمد مکمل سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ہوئی، جس سے دونوں ممالک کی جانب سے اس دورے کی سیاسی اہمیت کا اظہار ہوتا ہے۔ صدر کے ہمراہ اعلیٰ ایرانی حکام بھی موجود تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہران چاہتا ہے کہ یہ دورہ عملی سفارتی اور اقتصادی نتائج بھی سامنے لائے۔
تیانجن سے بیجنگ کا سفر انہوں نے چینی ہائی اسپیڈ ٹرین کے ذریعے طے کیا، جو چین کی تکنیکی ترقی کے ساتھ ایران کی قریبی رابطہ کاری اور انفراسٹرکچر تعاون میں دلچسپی کو اجاگر کرتا ہے۔
صدر پزشکیان کے چین دورے کا ایک اہم موضوع مغربی یکطرفہ رویوں کے مقابلے میں کثیرالطرفہ اقدامات کی ترویج تھا۔ انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم اور شنگھائی پلس اجلاس سے خطاب میں عالمی حکمرانی میں انصاف کی ضرورت اور تمام ممالک کے مساوی سلوک پر زور دیا۔
صدر پزشکیان نے اپنے ہم منصبوں سے ملاقاتوں کے دوران ایران کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کیا جو تصادم کے بجائے تعاون اور حل تلاش کرتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ تہران تنازعات کو بڑھانا نہیں چاہتا بلکہ ایسے مکالمات اور شراکت داری کو فروغ دینا چاہتا ہے جو باہمی مفادات پر مبنی ہوں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایران کو ایک مثبت علاقائی کردار ادا کرنے والا ملک قرار دیا اور اس الزام کی تردید کی کہ ایران غیر استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے۔
ایرانی صدر نے ایسے میکانزم کی ضرورت پر زور دیا جو تمام ممالک کی خودمختاری کو یقینی بنائے اور یکطرفہ پابندیوں کے نفاذ کے خلاف مزاحمت کرے۔ تہران کے لیے SCO محض اقتصادی یا سیکیورٹی بلاک نہیں بلکہ ایک سیاسی فورم بھی ہے جس کے ذریعے متبادل حکمرانی کے ماڈل پیش کیے جاسکتے ہیں۔ ایسی بین الاقوامی تنظیموں میں اپنی موجودگی کو مضبوط کرکے ایران یہ پیغام دیتا ہے کہ مغربی دباؤ کے باوجود وہ تنہا نہیں ہے۔
جوہری مسئلہ، اسنیپ بیک میکانزم اور سفارتی موقف
صدر کے دورے کا ایک اور اہم موضوع ایران کے جوہری پروگرام اور برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے اسنیپ بیک میکانزم کے فعال ہونے پر ردعمل تھا۔ پزشکیان نے دوطرفہ اور کثیرالطرفہ ملاقاتوں میں بار بار اس میکانزم کی قانونی حیثیت کو مسترد کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے قرارداد 2231 کے تحت اس کا کوئی قانونی جواز نہیں۔ اسنیپ بیک فعال کرنے کی کوشش نہ صرف سیاسی طور پر نقصان دہ ہے بلکہ قانونی حیثیت سے بھی خالی ہے۔ صدر پزشکیان نے اپنے ہم منصبوں کو یاد دلایا کہ امریکہ نے سب سے پہلے 2018 میں یکطرفہ طور پر جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن سے نکل کر اس معاہدے کی خلاف ورزی کی، اور بعد میں یورپ بھی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا۔ لہذا یورپی ممالک کی حالیہ کوششیں نہ صرف غیر منصفانہ ہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کی بنیادوں کو بھی کمزور کرتی ہیں۔
چین اور روس، دونوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک، پہلے ہی تہران کی دلیل کی حمایت کرچکے ہیں۔ ایران، روس اور چین کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ خط میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس کو یورپی ممالک کے اسنیپ بیک اقدام کے نتائج سے آگاہ کیا۔ تینوں ممالک کے اتحاد نے ظاہر کیا کہ ایران تنہا نہیں بلکہ مغربی طاقتوں کے عالمی اداروں میں اثر و رسوخ کی کوششوں کے خلاف ایک وسیع تر اتحاد کا حصہ ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایرانی صدر نے ایران کی جوہری پالیسی کو پرامن اور این پی ٹی کے دائرے میں واضح کیا۔ بین الاقوامی فورمز پر ایران کے موقف کی وضاحت کے ذریعے انہوں نے غلط فہمیوں کو کم کرنے اور کسی قسم کی کشیدگی کو روکنے کی کوشش کی۔ صدر نے بار بار زور دیا کہ ایران دھمکی یا دباؤ کے بجائے سفارتکاری اور مکالمے کو ترجیح دیتا ہے اور یہ موقف دہرایا کہ حصول پابندیوں اور دباؤ کے ذریعے مقاصد کا حصول ممکن نہیں۔
امریکہ اور اسرائیل کی ایران پر جارحیت کی مذمت
صدر مسعود پزشکیان کے حالیہ دورہ چین کا ایک اہم پہلو امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران کی سرزمین پر ہونے والی تازہ جارحیت کی مذمت تھا۔ صدر نے اس معاملے کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاسوں میں بھرپور طریقے سے اجاگر کیا اور عالمی برادری کو یاد دلایا کہ ایران کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے 25ویں سربراہی اجلاس میں رکن ممالک نے جون 2025 میں اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کیے گئے حملوں پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔ رہنماؤں نے واضح طور پر کہا کہ ایسے اقدامات نہ صرف ایران کی خودمختاری کی سنگین پامالی ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی صریح خلاف ورزی ہیں۔
SCO رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ شہری سہولیات اور بنیادی ڈھانچے، بالخصوص جوہری توانائی کے منصوبے ہر حال میں محفوظ رہنے چاہییں۔ ان تنصیبات پر حملے شہریوں کی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہیں اور یہ عالمی سطح پر امن و سلامتی کے اصولوں کے منافی ہیں۔
صدر پزشکیان کے مطابق، ایران اس معاملے کو عالمی ضمیر کے سامنے لانے اور ایسے غیر قانونی اقدامات کے خلاف مشترکہ موقف اپنانے کے لیے سفارتی کوششیں جاری رکھے گا۔
اسٹریٹجک اہمیت، مغربی یکطرفہ رویوں کے مقابلے میں ایران کا مؤقف
صدر مسعود پزشکیان کے دورۂ چین کا پیغام صرف جوہری مسئلے یا علاقائی تنازعات تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کا وسیع تر اسٹریٹجک پہلو بھی نمایاں تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایران ایک کثیرالقطبی عالمی نظام کا حامی ہے اور مغربی یکطرفہ رویوں کی مخالفت کرتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم اور دیگر ادارے ایران کے لیے ایسے مواقع فراہم کرتے ہیں جہاں تعاون کے نئے نظام قائم کیے جا سکیں جو مغربی دباؤ سے کم متاثر ہوں۔ ان اداروں میں شمولیت ایران کو معاشی تعلقات کو متنوع بنانے، نئے بازاروں تک رسائی حاصل کرنے اور مغربی دشمنی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔
اپنے خطاب میں صدر پزشکیان نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کو منصفانہ تجارت، سب کے لیے ترقی کے مواقع، اور ایسی سیکیورٹی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو ہر ملک کی خودمختاری کا احترام کریں۔
یہ دورہ دو سطحوں پر اہمیت رکھتا تھا۔ ایک طرف اس نے چین اور دیگر SCO رکن ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات کو مزید گہرا کیا اور دوسری طرف عالمی برادری میں ایران کی اس شناخت کو اجاگر کیا کہ وہ انصاف، خودمختاری اور کثیرالطرفہ تعاون کا مضبوط حامی اور محافظ ہے۔
نتیجہ
صدر مسعود پزشکیان کا حالیہ چین کا دورہ معمول کی سفارتی سرگرمی سے بڑھ کر تھا۔ یہ دورہ ایران کے اس عزم کا مظہر تھا کہ وہ بین الاقوامی اداروں میں اپنا کردار مستحکم کرے، مغربی یکطرفہ اقدامات کی مزاحمت کرے اور عالمی سطح پر ایک ذمہ دار اور امن پسند ملک کے طور پر سامنے آئے۔
شنگھائی تعاون تنظیم اور شنگھائی پلس اجلاسوں میں صدر پزشکیان نے اہم نکات پر ایران کا واضح مؤقف پیش کیا۔ انہوں نے اسنیپ بیک میکانزم کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام غیر منصفانہ اور یکطرفہ ہے۔ ساتھ ہی، امریکہ اور اسرائیل کی حالیہ جارحیت کو ایران کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
چینی قیادت اور دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں صدر پزشکیان نے واضح کیا کہ ایران تعاون کے لیے مکمل طور پر تیار ہے، مکالمے کو تصادم پر ترجیح دیتا ہے، اور عالمی حکمرانی میں انصاف اور توازن کے اصولوں کو ضروری سمجھتا ہے۔
21:14 - 2025/09/03
آپ کا تبصرہ