مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، صہیونی حکومت کا ایک مشہور جاسوس جاناتان اسپایر حالیہ دنوں متحدہ عرب امارات کی سرپرستی میں یمن کے شہر عدن پہنچا ہے، جہاں اس نے انصاراللہ تحریک کے خلاف خفیہ مشن پر کام شروع کر دیا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق، اسپایر جو کہ بظاہر ایک صحافی کے طور پر عدن آیا ہے، درحقیقت اسرائیل کا پرانا انٹیلیجنس ایجنٹ ہے۔ اس کا یمن میں داخلہ اماراتی حمایت یافتہ ملیشیاؤں اور عدن کی خودساختہ حکومت کی مکمل آشیر باد سے ممکن ہوا۔
ذرائع کے مطابق، اسپایر کو عدن پہنچنے پر متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ مقامی حکام نے باضابطہ طور پر خوش آمدید کہا۔ اس دوران اس نے نام نہاد وزیر دفاع محسن الداعری سمیت کئی اعلی شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کی صہیونی شناخت سب پر عیاں تھی، مگر پھر بھی اسے خوش آمدید کہا گیا۔
یہ انکشاف ایک صہیونی اخبار یروشلم پوسٹ کی رپورٹ کے بعد منظر عام پر آیا جس میں عدن کی موجودہ صورتحال اور اسرائیلی مفادات پر مبنی معلومات شائع کی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق، اسپایر کا مشن ایسے یمنی عناصر کی تلاش ہے جو اسرائیل اور مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر انصاراللہ کے اثر و رسوخ کو کمزور کرنے میں مدد دے سکیں۔
دوسری جانب یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ اور دیگر محب وطن قوتوں نے اس اقدام کو کھلی غداری اور صہیونی عزائم کا حصہ قرار دیا ہے۔
المسیرہ ٹی وی نے اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پورے یمن کے عوام، خواہ ان کے آپس میں سیاسی اختلافات ہوں، فلسطین کے مسئلے، اسرائیلی دشمنی اور امریکی سرپرستی کی مخالفت پر مکمل متحد ہیں۔
المسیرہ نے مزید کہا کہ یمنی قوم کسی بھی بیرونی سازش یا غداری کو قبول نہیں کرے گی۔ عرب امارات و اسرائیل کی ملی بھگت کا مقابلہ ہر محاذ پر کیا جائے گا۔
یمن کے مقبوضہ علاقوں خصوصا عدن میں امارات کے حمایت یافتہ حکام کی جانب سے غزہ پر صہیونی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔
المسیرہ کے مطابق، ماضی میں یہی اماراتی حمایت یافتہ عناصر فلسطینی عوام سے یکجہتی اور اسرائیلی مظالم کی مذمت کا دعوی کرتے تھے لیکن اب صورتحال مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ غزہ کے حق میں کوئی مظاہرہ، پلے کارڈ اٹھانا، یا یہاں تک کہ جمعے کے خطبوں میں فلسطینی مظلوموں کے لیے دعا کرنا بھی عدن میں ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عدن کی مساجد میں نہ صرف غزہ کے حالات کا ذکر ممنوع ہے، بلکہ خواتین و بچوں کی مدد کی اپیل کو بھی جرم سمجھا جا رہا ہے۔
المسیرہ نے لکھا کہ یہ پالیسی درحقیقت ایک بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اماراتی کرائے کے فوجیوں کی جانب سے عدن میں کچھ ائمہ مساجد پر حملے کیے گئے ہیں، جن کی وجہ ان علما کے صہیونیت مخالف بیانات ہیں۔ ان میں عدن کی مسجد کے خطیب شیخ محمد الکاظمی اور شیخ علی المحثوثی شامل ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ عدن، ابین، شبوہ، لحج، ضالع اور یمن کے تمام علاقوں کے باشندے اسرائیل کے ساتھ کسی قسم تعاون کو مسترد کرتے ہیں۔ لہذا امارات کے کرائے کے فوجیوں اور ان کے آلہ کاروں کے یہ اقدامات یمنی عوام کے مؤقف اور تاریخ کی توہین اور اس پر حملہ ہیں۔
آپ کا تبصرہ