مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عمان کی معروف مصنفہ اور صحافی فائزہ محمد، جو کتاب "در قلب ایران" کی مصنفہ بھی ہیں نے مہر نیوز سے گفتگو میں اسرائیلی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہیں اور اس سے صیہونی حکومت کا اصل چہرہ بے نقاب ہوتا ہے۔
عام شہریوں کو نشانہ بنانے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ایران میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد میں شہادت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اصل مقصد ان عوام کے حوصلے کو توڑنا، انہیں خوفزدہ کرنا اور ان ممالک کو غیر مستحکم کرنا تھا جو صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ سازشوں کے خلاف کھڑے ہیں۔
انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ اسرائیل آخر کیوں غزہ، لبنان اور ایران جیسے ممالک میں نہتے شہریوں پر حملہ کرتا ہے کہا کہ یہ رژیم اپنی بنیاد سے ہی توسیع پسندی، تسلط اور طاقت کے ذریعے قبضے کو قانونی بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ غزہ، لبنان اور ایران کے نہتے شہریوں کو نشانہ بنانا اس کی انہیں مستقل کوششوں کا حصہ ہے تاکہ ہر اُس طاقت یا مزاحمت کو کمزور کیا جا سکے جو اس کے وجود کے لیے خطرہ بنے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور مغربی ممالک کی بلا مشروط حمایت اور اسرائیل کو سزا سے بچانے کی روش ہی ان جرائم کی تسلسل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے عالمی برادری کی خاموشی کو بھی ان مظالم کا ایک بڑا سبب قرار دیا۔
فائزہ محمد واضح کیا کہ اگر عالمی برادری اسرائیل کو قانون کا پابند بنانے میں سنجیدہ نہیں، تو یہ مظالم یونہی جاری رہیں گے۔
اسرائیل کی اصل نیت خواتین، بچوں اور شہریوں کو نشانہ بنانا ہے، یہ "جنگی جرم" ہے، نہ کہ دفاعی اقدام
فائزہ محمد نے غاصب اسرائیل کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ اس کا حملہ ایران کے "ایٹمی اور میزائل پروگرام کو روکنے" کے لیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت میں صہیونی حکومت نے ہسپتالوں، انفراسٹرکچر اور میڈیا اداروں کو نشانہ بنایا، اور زیادہ تر شہداء خواتین اور بچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تضاد درحقیقت اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ کے چھپے ہوئے عزائم کو بے نقاب کرتا ہے۔
فائزہ محمد نے واضح کیا کہ یہ حملے نہ تو محض دفاعی تھے اور نہ ہی مخصوص پروگرامز کے خلاف، بلکہ ان کا اصل ہدف عوامی ارادے کو توڑنا، خوف پھیلانا اور ان ملکوں کو غیرمستحکم کرنا تھا جو اسرائیلی توسیع پسندانہ منصوبوں کے خلاف کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور اس کے حامی دراصل ایک "اجتماعی سزا" کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں تاکہ خوف، افراتفری اور سماجی فالج پیدا کر کے معاشروں کو جھکنے پر مجبور کیا جا سکے۔
مغربی ممالک اسرائیلی مظالم پر خاموش کیوں؟
فائزہ محمد نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اسرائیل کے جنگی جرائم کی واضح دستاویزات موجود ہیں، لیکن مغربی حکومتیں اب بھی اس کی سیاسی و عسکری حمایت کر رہی ہیں۔
اس خاموشی کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ خاموشی مفادات، طاقت کے کھیل اور اسرائیل سے تزویراتی وابستگی کی عکاسی کرتی ہے۔ مغربی ممالک اسرائیل کو اپنا اسٹریٹجک پارٹنر سمجھتے ہیں، جو ان کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے اور خطے میں ان کے اثر و رسوخ کو وسعت دیتا ہے۔
فائزہ نے مزید کہا کہ اسرائیل نواز لابیز مغربی ممالک میں پالیسی سازی پر اثر انداز ہو کر ان جرائم کو چھپاتے اور انہیں "دہشت گردی کے خلاف جنگ" جیسے بہانوں سے جائز قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انسانی اقدار اور حقوق کا خون صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ کچھ ممالک طاقت اور مفادات کے کھیل میں انہیں قربان کر رہے ہیں۔ اور اس کی قیمت نہتے عوام چکا رہے ہیں۔
مغربی میڈیا کی جانب داری کیسے سمجھا جائے؟
فائزہ محمد کے مطابق، مغربی میڈیا کی صہیونی حکومت کے حق میں یکطرفہ رپورٹنگ کوئی اتفاقی کام نہیں بلکہ ایک وسیع اور منظم نظام کا نتیجہ ہے جسے ایسی تنظیمیں کنٹرول کرتی ہیں جن کے سیاسی اور اقتصادی مفادات اسرائیل سے جُڑے ہوئے ہیں۔ میڈیا میں اسرائیل کو ہمیشہ مظلوم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ غزہ، لبنان اور ایران میں غیر نظامی شہریوں پر ہونے والے حملوں اور قتل و غارت کو چھپایا یا غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔
اس روایت کا مقصد عالمی سطح پر ہمدردی حاصل کرنا اور مغربی عوام کے سامنے اسرائیلی نقض حقوق کو جائز قرار دینا ہے۔
امریکہ کی اقوام متحدہ اور ایران کے خلاف رویے
انہوں نے امریکہ کے اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اسرائیلی جرائم کی مذمت سے مسلسل مخالفت کو دوہری معیار قرار دیا کہ امریکہ خود کو جمہوریت اور سفارتکاری کا علمبردار ظاہر کرتا ہے، لیکن عملی طور پر وہ ہر ایسی قرارداد کو ویٹو کر دیتا ہے جو اسرائیلی جرائم کی مذمت کرے، اور اپنے سیاسی اثر و رسوخ سے اسرائیل کو جواب دہی سے بچاتا ہے۔
ایران کے خلاف جنگی رویے پر بھی انہوں نے تنقید کی اور کہا کہ جب سیاسی دباؤ ناکام ہو جاتے ہیں، تو امریکہ سفارتی مذاکرات سے کنارہ کش ہو کر عسکری حربوں پر انحصار کرتا ہے، جیسا کہ حال ہی میں ایران کے خلاف کیا گیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی پالیسی اپنی مفادات اور اسٹریٹجک اتحاد کے تابع ہے، خواہ اس کے لیے قبضے اور جنگی جرائم کی حمایت کرنی پڑے۔
عالمی دوہرے معیار کی واضح مثال
انہوں نے اسرائیلی جارحیت اور عالمی نظام کی دوہری پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، جن پر کسی بھی بین الاقوامی ایجنسی کی نگرانی نہیں، جبکہ ایران کو اس کے شفاف ایٹمی پروگرام کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ بین الاقوامی دوہرے معیار کی سب سے نمایاں مثال ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ رویہ عالمی قوانین اور اداروں پر اعتماد کو متزلزل کرتا ہے، کیونکہ قوانین صرف طاقتور ممالک کے مفادات کے مطابق لاگو کیے جاتے ہیں۔ اگر عالمی برادری واقعی انصاف چاہتی ہے تو اسے تمام ممالک کے لیے یکساں اصولوں کا اطلاق کرنا ہوگا۔ اسرائیل کو ایٹمی معاہدات کا پابند بنایا جائے اور خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی ہر مخلص کوشش کی غیر مشروط حمایت کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے جان بوجھ کر خواتین، بچوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنانا محض "حادثاتی نقصان" نہیں، بلکہ ایک منظم حکمت عملی ہے۔
یہ حملے عوام کے حوصلے کو توڑنے، انہیں خوفزدہ کرنے اور ان کے سامنے ایک ایسا کربناک انتخاب رکھنے کے لیے کیے جاتے ہیں کہ یا تو وہ ظلم کو قبول کرلیں یا اپنی نسلیں قربان کریں۔
فائزہ محمد نے زور دے کر کہا کہ اصل مقصد یہ ہے کہ عوام مزاحمت چھوڑ دیں، اپنی عزت نفس ترک کر دیں، اور اس قابض ریاست کے سامنے جھک جائیں تاکہ وہ اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو بلا روک ٹوک جاری رکھ سکے۔
فائزہ محمد نے اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا اصل مقصد خطے میں سیاسی اور عسکری برتری قائم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے قبضے کو حقیقت بنا کر اسٹریٹجک اور قدرتی وسائل پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکے۔ ان کے مطابق، اسرائیل خطے میں ایک مستقل عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ کوئی بھی ہمسایہ ملک ایک مضبوط اور متحد ریاست کے طور پر اس کے سامنے نہ کھڑا ہو سکے۔
عالمی احتجاج کو مؤثر دباؤ میں کیسے بدلا جائے؟
فائزہ محمد نے کہا کہ دنیا بھر میں اسرائیلی مظالم کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی آواز ایک اخلاقی طاقت ہے، لیکن جب تک یہ صرف جذباتی ردعمل تک محدود ہے، مؤثر ثابت نہیں ہوگی۔
ان کے مطابق عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں، سول سوسائٹی اور عالمی میڈیا باہمی طور پر حکومتوں پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ اسرائیل کے خلاف سیاسی، عسکری اور اقتصادی پابندیاں عائد کریں۔
اسرائیلی رہنماؤں کا احتساب کیوں ممکن نہیں ہو رہا؟
مصنفہ نے بتایا کہ اسرائیلی قیادت کے خلاف عالمی عدالتوں میں مقدمات نہ چلنے کی بڑی وجہ، امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کی سیاسی سرپرستی ہے۔
اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کے استعمال اور عالمی اداروں میں اثر و رسوخ کی وجہ سے اسرائیل ہر قسم کے احتساب سے بچ جاتا ہے، خواہ اس کے خلاف کتنے ہی ٹھوس شواہد موجود ہوں۔
فائزہ محمد نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ کا استعمال ایک طویل المدت حکمت عملی ہے، جس کا مقصد مخالف آوازوں کو خاموش کرنا اور مزاحمتی تحریکوں کی قیادت کو مفلوج کرنا ہے۔
انہوں نے اسے کھلی ریاستی دہشت گردی قرار دیا جس میں انسانی جانوں کی کوئی قدر باقی نہیں۔
ایران پر حملہ، جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی
ایران پر حالیہ اسرائیلی حملوں پر فائزہ محمد نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ خواتین اور بچوں کا قتل، اسپتالوں اور میڈیا اداروں پر حملے اور حتیٰ کہ اوین جیل جیسے مراکز کو نشانہ بنانا، دفاع نہیں بلکہ کھلی جنگی مجرمانہ کارروائیاں ہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اوین جیل سے ایسا کیا خطرہ تھا جس کے باعث اسے میزائلوں کا نشانہ بنایا گیا؟
آخر میں انہوں نے عالم اسلام اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ یہ جرائم مزید خاموشی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انسانی ضمیر کو جاگنا ہوگا، عالمی برادری کو قانونی اور اخلاقی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔ مظلوموں کی آواز سنی جائے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
آپ کا تبصرہ