مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران نے جوہری مذاکرات کے نئے دور کے آغاز کو فریق مخالف کی سنجیدگی، انصاف پر مبنی معاہدے کی تیاری اور دھمکی آمیز پالیسیوں کے خاتمے سے مشروط کر دیا ہے۔
وزیر خارجہ عباس عراقچی نے یورپی تین ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ایک آن لائن کانفرنس میں واضح کیا کہ ایران مذاکرات کے لیے آمادہ ہے لیکن صرف اس صورت میں جب فریق مخالف منصفانہ اور باہمی مفاد پر مبنی معاہدے کے لیے تیار ہو۔
عراقچی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے پیغام میں کہا کہ امریکہ نے 2015 میں یورپی یونین کی وساطت سے ہونے والے دو سالہ مذاکراتی معاہدے سے خود علیحدگی اختیار کی، اور رواں سال جون میں بھی مذاکرات کی میز چھوڑ کر عسکری راستہ اختیار کیا۔ ایران نے نہ تو مذاکرات ترک کیے اور نہ ہی جنگ کا راستہ چنا۔
انہوں نے کہا کہ اگر یورپی ممالک مذاکرات میں کردار چاہتے ہیں تو انہیں اپنی پرانی پالیسیوں کو ترک کرنا ہوگا کیونکہ ان کے پاس اس کے لیے نہ کوئی اخلاقی جواز ہے اور نہ قانونی حیثیت۔
دوسری جانب ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے بھی ایک پریس بریفنگ میں سنیپ بیک میکانزم کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ اس شق کو سیاسی دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، حالانکہ اس کی کوئی قانونی، اخلاقی یا سیاسی بنیاد موجود نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران اب بھی JCPOA کا فریق ہے اور اس کی جانب سے معاہدے پر عملدرآمد میں کمی ایک جائز ردعمل ہے جو امریکہ اور دیگر مغربی فریقین کی خلاف ورزیوں کے بعد سامنے آیا۔ ان کے مطابق، معاہدے کی شقوں کے مطابق ایران کو اس کا پورا حق حاصل ہے۔
اسماعیل بقائی نے یورپی ممالک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود اپنے وعدے پورے نہیں کرتے لیکن ایران کو سنیپ بیک کی دھمکیاں دیتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس نہ قانونی اختیار ہے اور نہ ہی اخلاقی حیثیت کہ وہ اس میکانزم کو متحرک کریں۔
آپ کا تبصرہ