مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بین الاقوامی ایجنسی برائے جوہری توانائی کے اجلاس میں امریکہ اور تین یورپی ممالک کی قرارداد کو اکثریت کے ساتھ منظور کیا گیا ہے۔
قرارداد کی منظوری کے بعد ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے تناو میں دوبارہ اضافہ ہوا ہے۔ قرارداد پر ردعمل دیتے ہوئے خارجہ پالیسی کے ماہر محسن پاک آئین نے کہا ہے کہ یہ قرارداد مکمل طور پر سیاسی مقاصد کے تحت اور ایران کی جانب سے ہونے والے تعاون کو نظرانداز کرتے ہوئے پیش کی گئی ہے۔
پاک آئین نے کہا کہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے جان بوجھ کر ایران کے خلاف ایسی قرارداد پیش کی جس کا مقصد ایران کو دباؤ میں لانا ہے، حالانکہ ایران نے مسلسل ایجنسی کے ساتھ تکنیکی اور شفاف تعاون جاری رکھا ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ قرارداد کو منظور کر لیا گیا، مگر چین، روس، کیوبا، بلاروس، نکاراگوا اور وینزویلا جیسے اہم ممالک نے ایران کے مؤقف کی بھرپور حمایت کی۔ ان میں سے چین اور روس سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والے مستقل رکن ہیں، جنہوں نے نہ صرف ایران کی حمایت کی بلکہ IAEA کی رپورٹ کو غیر فنی اور سیاسی رنگ دینے پر تنقید بھی کی۔
پاک آئین نے مزید کہا کہ ان ممالک کے بیانات میں واضح طور پر یورپی ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ دھمکی آمیز اور سخت گیر مؤقف اپنانے کے بجائے بات چیت اور باہمی احترام کے ساتھ ایران کے ساتھ اختلافات کو حل کریں۔
ایرانی تجربہ کار تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ IAEA کی رپورٹ میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے اس لیے ایران کا معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھیجنے کا کوئی قانونی یا فنی جواز موجود نہیں۔ یہ رپورٹ دراصل ایک سفارتی حربہ ہے تاکہ امریکہ مذاکرات میں زیادہ سے زیادہ امتیاز حاصل کرسکے۔
پاک آئین نے متنبہ کیا کہ یہ رپورٹ یورپی ممالک کے لیے سنیپ بیک میکانزم کو فعال کرنے کا ایک بہانہ بن سکتی ہے۔ ایک ایسا اقدام جو جوہری معاہدے کے تحت ایران کے خلاف دوبارہ تمام پابندیاں بحال کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ایران ہر ممکنہ سناریو کے لیے تیار ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ امریکہ اور یورپی ممالک اس بار غلط اقدام نہ کریں جیسا کہ وہ ماضی میں کرتے آئے ہیں۔
آپ کا تبصرہ