29 ستمبر، 2025، 4:19 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

جوہری معاہدہ سلامتی کونسل میں دفن، امریکہ اور یورپ کا غیر معقول موقف

جوہری معاہدہ سلامتی کونسل میں دفن، امریکہ اور یورپ کا غیر معقول موقف

امریکہ اور یورپی ممالک نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو ختم کرکے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے اصولوں کی دھجیاں اڑا دیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی جانب سے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی سے مسلسل تعاون اور یورپی ممالک کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے باوجود، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے روس اور چین کی جانب سے پیش کردہ اس قرارداد کو مسترد کردیا جس کا مقصد ایران کی جوہری سفارت کاری کو جاری رکھنا تھا۔ اس فیصلے نے یورپ کی دباؤ پر مبنی حکمت عملی کی ناکامی سے پردہ ہٹادیا۔

تہران نے قاہرہ معاہدے سے لے کر تین یورپی ممالک کے ساتھ براہِ راست بات چیت تک، ہر تعمیری اور منطقی سفارتی راستہ اختیار کیا۔ اس کے باوجود یورپ نے مسلسل دباؤ اور الزام تراشی کی پالیسی پر عمل کیا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس اور اس کے ضمنی اجلاسوں میں ایران نے اپنے تعمیری رویے کو جاری رکھتے ہوئے سفارتی عمل کو آگے بڑھانے کی آخری کوششیں کیں۔ تاہم یورپی ممالک نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران پر الزام لگانے اور دباؤ ڈالنے کی پالیسی کو ترک نہیں کیا۔ تینوں یورپی ممالک کے مطالبات ہمیشہ غیر منطقی رہے ہیں۔ ان کا مقصد بحران کا حل نہیں بلکہ ایران پر دباؤ ڈالنے اور اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے بہانے تراشنا رہا ہے۔ ایران نے جوہری معاہدے کے فریم ورک کے تحت اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کیں اور IAEA سے مکمل تعاون کیا، لیکن دوسری جانب سے کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں آیا۔

یہ صورتحال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ایران کی تعمیری سفارت کاری کو نظر انداز کر کے یورپ نے صرف سیاسی دباؤ اور یکطرفہ حکمت عملی کو ترجیح دی، جو خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتی ہے۔

جمعہ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں روس اور چین نے ایران کے ساتھ تعاون جاری رکھنے اور مذاکرات کے لیے چھ ماہ کی اضافی مدت کی درخواست کی۔ لیکن یہ درخواست 9 ممالک کی مخالفت، 2 کے غیرجانبدار اور 4 کی حمایت کے ساتھ مسترد ہوگئی۔ روس، چین، الجزائر اور پاکستان نے حمایت کی، جبکہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، اور دیگر نے مخالفت کی۔ گیانا اور جنوبی کوریا نے غیرجانبداری کا اظہار کیا۔

روسی نمائندے نے کہا کہ یورپی ممالک ایران پر غیر مناسب دباؤ ڈال رہے ہیں اور جو طریقہ کار استعمال کیا جا رہا ہے وہ غیر قانونی ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ مغرب نے اپنے وعدے توڑے اس لیے ایران کو بھی کچھ وعدے پورے کرنے سے دستبردار ہونا پڑا۔ جو ممالک قرارداد کی حمایت کر رہے ہیں وہ صحیح راستے پر ہیں کیونکہ وہ مذاکرات کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چین، پاکستان اور الجزائر نے بھی کہا کہ مذاکرات ہی واحد حل ہیں، اور اگر پرامن حل نہیں نکلا تو خطے اور دنیا کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔

دوسری طرف امریکہ، فرانس اور جرمنی نے ایران پر وعدے خلافی کا الزام لگایا اور پابندیاں دوبارہ لگانے کا اعلان کیا۔

ہفتے کے روز نیویارک سے واپسی سے قبل ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یورینیم کی افزودگی مکمل طور پر بند کر دے، جس کے بدلے تین ماہ کے لیے پابندیاں معطل کی جائیں گی۔

صدر نے اس مطالبے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ اگر ہمیں ان کے غیر منطقی مطالبے اور اسنیپ بیک کے درمیان انتخاب کرنا پڑے، تو ہم اسنیپ بیک کو ترجیح دیں گے اور اپنے چیلنجز کا خود مقابلہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایران اپنے ہمسایہ ممالک، BRICS اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے ساتھ تعلقات اور عوامی حمایت کے ذریعے موجودہ حالات پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

صدر نے کہا کہ وزیر خارجہ کی قیادت میں ایران کی خارجہ پالیسی ٹیم نے یورپی اور اسلامی ممالک کے ساتھ متعدد مذاکرات کیے ہیں تاہم ایران کبھی مغربی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا۔

انہوں نے ایک بار پھر واضح کیا کہ ایران نے کبھی جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کی، اور اس کا اصل مقصد علاقائی امن و سلامتی کا تحفظ ہے۔

صدر نے ان الزامات کو بھی مسترد کیا کہ ایران مزاحمتی گروہوں کو اشتعال دلاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسرائیلی پروپیگنڈا ہے۔ حزب اللہ اور حماس جیسے گروہوں کی کارروائیاں اسرائیلی جارحیت کا ردعمل ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے صدر کو ایک اہم خط ارسال کیا، جس میں انہوں نے امریکہ اور تین یورپی ممالک کی جانب سے قرارداد 2231 کے تحت ختم شدہ پابندیوں کو دوبارہ نافذ کرنے کی کوششوں کو غیر قانونی، بے بنیاد اور بلا جواز قرار دیا۔

عراقچی نے واضح کیا کہ ایران اور اقوام متحدہ کے کسی بھی رکن ملک پر مغربی ممالک کی یکطرفہ اور غیر قانونی پابندیوں کی پابندی لازم نہیں ہے۔ انہوں نے سیکریٹری جنرل سے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹریٹ کو ایران پر سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایران کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش کی گئی تو مناسب جواب دیا جائے گا، اور اس کے تمام نتائج کی ذمہ داری ان ممالک پر عائد ہوگی جو تصادم کا راستہ اختیار کررہے ہیں۔

عراقچی نے یہ بھی دوٹوک انداز میں کہا کہ 18 اکتوبر 2025 کے بعد ایران کسی بھی قسم کی نئی پابندی یا توسیع شدہ پابندی کو تسلیم نہیں کرے گا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس کے نتائج نے پابندیوں کی واپسی کی راہ ہموار کر دی اور جوہری معاہدے کو مغربی شور و پروپیگنڈے کے درمیان دفن کر دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے جسے عباس عراقچی نے بھی تسلیم کیا۔

ایران نے فوری ردعمل دیتے ہوئے جرمنی، فرانس اور برطانیہ سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ ایران کی جوہری سفارت کاری کا ایک نیا باب شروع ہوچکا ہے۔ اس مرحلے میں ایران نہ صرف اپنے وعدوں پر قائم ہے بلکہ سفارتی اصولوں کی پاسداری کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات میں منطقی توازن برقرار رکھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

یہ مرحلہ عالمی سفارت کاری کی پیچیدگی اور بڑی طاقتوں کے باہمی اثرات کی عکاسی کرتا ہے، جہاں بعض فریقوں کا غیر منطقی رویہ ایران اور عالمی برادری دونوں کے لیے نئے اور منفرد چیلنجز پیدا کرتا ہے۔

تاہم، تجربہ یہ بتاتا ہے کہ مذاکرات کی میز پر واپسی اور سفارت کاری کی رہنمائی کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ ایران ایک مدبرانہ اور متوازن حکمت عملی کے ذریعے اس صورتحال کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

News ID 1935652

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha