11 جولائی، 2025، 11:07 PM

برطانیہ، میوزک فیسٹیول میں "صہیونی فوج مردہ باد" کے نعرے؛ تل ابیب کی عالمی سطح پر تنہائی میں اضافہ

برطانیہ، میوزک فیسٹیول میں "صہیونی فوج مردہ باد" کے نعرے؛ تل ابیب کی عالمی سطح پر تنہائی میں اضافہ

برطانیہ کے معروف میوزک فیسٹیول میں "صہونی فوج مردہ باد" کے نعرے گونج اٹھے، جو عالمی سطح پر صہیونی حکومت کے خلاف پھیلنے والی نفرت کا ایک اظہار ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غزہ میں فلسطینی شہریوں کے خلاف وحشیانہ جرائم کے منظر عام پر آنے کے بعد دنیا بھر میں صہیونیوں کے خلاف نفرت کی ایک وسیع لہر پیدا ہوئی ہے جس کے اثرات بین الاقوامی فورمز اور مختلف محافل میں واضح دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں برطانوی گلوکار باب ویلن نے سمرسٹ کاونٹی میں سالانہ ہونے والے مشہور گلاسٹنبری میوزک فیسٹیول میں اسٹیج پر آ کر حاضرین کو "آزاد فلسطین" کے نعرے لگانے کی دعوت دی۔

باب ویلن نے برطانیہ اور امریکہ کو اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور امید ظاہر کی کہ ایک دن فلسطینی عوام صہیونی ظلم سے آزاد ہوجائیں گے۔ بعد ازاں انہوں نے "اسرائیلی فوج مردہ باد" کا نعرہ بلند کیا جسے حاضرین نے بھی زور سے دہرا یا۔ یہ واقعہ نہ صرف برطانوی بلکہ مغربی اور خطے کے دیگر میڈیا میں بھی ایک اہم خبر بن گیا۔

برطانیہ میں صہیونی سفارت خانے نے ان نعرے کو اشتعال انگیز اور نفرت پر مبنی قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ باب ویلان کے نعرے اور باتیں یہودیوں کے خلاف نسل کشی کے لئے اکسانے کے مترادف ہیں۔

بی بی سی نے اس پروگرام کو براہ راست نشر کیا لیکن بعد میں معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے نعرے اس کے پروگراموں میں قابل قبول نہیں ہیں۔

برطانوی پولیس نے باب ویلن اور آئرلینڈ کے میوزک بینڈ "کی نی کپ" کے خلاف ایک کریمنل انویسٹی گیشن شروع کر دی ہے۔ اسی طرح، امریکی وزارت خارجہ نے باب ویلن کا ویزا منسوخ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ اس سال کے آخر میں امریکہ میں شیڈول کنسرٹس میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔

انسانی حقوق اور آزادی اظہار پر مغرب کا دوہرا معیار

مغربی میڈیا نے روایتی دوغلا پن کا ثبوت دیتے ہوئے گلاسٹنبری میوزک فیسٹیول میں پیش آنے والے واقعے کی رپورٹنگ کرتے وقت غزہ میں اسرائیلی ظلم و ستم اور نسل کشی کو نظر انداز کر دیا اور برطانوی گلوکار باب ویلان کی فلسطینیوں کے حق میں بات کرنے پر شدید تنقید کی۔ غزہ میں صہیونی فوج کے مظالم پر رونے والے بچوں اور سسکیاں لینے والی ماوں اور اولاد کے جنازے کندھوں پر اٹھانے مناظر پر ان پر خاموشی چھائی رہی۔ باب ویلن کی طرف سے صہیونی جرائم پیشہ فوج کے خلاف نعروں پر انسانی حقوق کے چمپئین دوبارہ میدان میں آگئے اور واقعے کی مذمت میں آسمان سر پر اٹھانا شروع کیا۔

برطانوی صحافی جوناتھن کک نے مغربی میڈیا کی دوغلی پالیسی پر کرتے ہوئے کہا کہ آئیے تمام باتوں کو ایک طرف رکھ کر یہ سوال کریں کہ تل ابیب کا غزہ کے لیے اصل منصوبہ کیا ہے؟ وہ منصوبہ جس کے بارے میں اسرائیلی فوج کہتی ہے کہ وہ غزہ کے بے گھر اور بھوکے لوگوں تک امداد پہنچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ تمام فلسطینیوں کو جنوب غزہ میں اکٹھا کرے اور پھر کوئی ضمانت نہیں کہ ان پر بمباری نہیں کی جائے گی۔

غزہ میں بھوک سے مرنے والے بچوں کی لاشیں، خوفناک مناظر، اور ایسے بے سہارا مہاجرین کا قتل جو اپنے بچوں کے لیے ایک نوالہ ڈھونڈ رہے تھے، یہ سب مغربی میڈیا کی نظر سے اوجھل ہیں، اور وہ ان مظالم کی مذمت کی ہمت بھی نہیں رکھتے لیکن جب ایک غیر جانبدار گلوکار صرف اتنا کہتا ہے کہ وہ مظلوموں کی حمایت کرتا ہے اور ان پر ہونے والے ظلم بند ہونے چاہئیں، تو یہی مغربی میڈیا اسے شدید تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور یہود دشمنی کا الزام لگا دیتا ہے۔

دوسری جانب، عالمی اداروں اور مغربی میڈیا کے اس خاموش رویے کے باعث، صہیونی آبادکار اور فوجی پہلے سے زیادہ بے خوف ہو کر فلسطینیوں پر وحشیانہ حملے کر رہے ہیں اور اپنی دہشتگردی کو بغیر تعطل کے جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

برطانوی وزیر وس اسٹریٹنگ نے اسرائیلی سفارت خانے کے اس الزام پر کہ گلاسٹنبری فیسٹیول میں تشدد کی حمایت کی جا رہی ہے، سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی سفارت خانے کو پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔

انہوں نے واضح کیا کہ صہیونی آبادکار فلسطینیوں کے خلاف خوفناک اور ظالمانہ حملے کر رہے ہیں۔

برطانوی پارلیمنٹ کی آزاد رکن زہرہ سلطانہ نے بھی چند روز قبل کہا کہ وہ اس دن کا انتظار کر رہی ہیں جب امریکہ اور برطانیہ آزادی اظہار پر پابندی عائد کرنے کے بجائے صہیونی نسل کشی کی حمایت سے ہاتھ کھینچیں اور اسرائیلی فوج کے جرائم کی بھرپور مذمت کریں۔

News ID 1934218

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha