4 جولائی، 2025، 6:32 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

ایران پر غیر منصفانہ حملے میں رفائیل گروسی کا کردار، عالمی ایجنسی کی ساکھ داؤ پر

ایران پر غیر منصفانہ حملے میں رفائیل گروسی کا کردار، عالمی ایجنسی کی ساکھ داؤ پر

رفائیل گروسی کی سربراہی میں عالمی جوہری ایجنسی کے کردار کی وجہ سے ایران پر غیر منصفانہ حملے کے بعد ادارے کی عالمی ساکھ شدید خطرے میں ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: صہیونی حکومت کی جانب سے ایران پر حملے نے عالمی سطح پر ایٹمی عدم پھیلاؤ اور آئی اے ای اے کے کردار پر تنازعہ پیدا کر دیا ہے۔ اس جنگ نے واضح کردیا کہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا اصل مقصد مغربی غلبے اور سامراجیت کو فروغ دینا، دیگر ممالک کو کمزور کرنا اور ایٹمی سائنس و ٹیکنالوجی کو صرف مغربی ممالک تک محدود رکھنا ہے۔

آئی اے ای اے اور اس کے گورننگ بورڈ نے 12 روزہ جنگ سے قبل ایک بیان جاری کیا تھا جس میں دعوی کیا گیا کہ تہران نے یورینیم کی افزودگی نہ کرنے اور معائنہ کاروں کی جانچ کی سہولت فراہم کرنے کے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس قرارداد کے چند گھنٹوں بعد، اسرائیل، جو خطے میں واحد ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ملک ہے اور این پی ٹی پر دستخط نہیں کیا، نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ شروع کردیا۔

اس واقعے سے آئی اے ای اے کے بارے میں اس تاثر کو مزید تقویت ملی ہے کہ عالمی ایجنسی اسرائیلی جارحیت کو جائز ٹھہرانے اور ایٹمی ہتھیاروں کے انحصار کو قانونی حیثیت دینے میں موثر کردار ادا کررہی ہے۔ گروسی نے اسرائیلی حملوں پر ردعمل گہری تشویش تک منحصر تھا، جو ایرانی سویلین اور ایٹمی تنصیبات کے خلاف اس جارحیت کی ناکافی اور بے معنی تھا۔

آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے مصنف ڈیلن ایوانز نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کو ایک غیرجانبدار ادارہ قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ یہ ایجنسی مغربی طاقتوں، بالخصوص امریکہ کے اثر و رسوخ میں کام کرتی ہے، جس کا اس کے فیصلوں پر گہرا تسلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایجنسی خطرناک حد تک ایران کی مخالف ہے اور عموما مغربی ممالک، اسرائیل اور امریکہ کے بیانیے کو دہراتی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں یہ ادارے کی ایران کے خلاف پانچویں قرارداد ہے، جو اس کے تعصب کو واضح کرتی ہے۔

ایوانز نے اپنے تجزیے میں ایران اور اسرائیل کے ساتھ ایجنسی کے دوہرے معیار کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں، ایجنسی نے اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر کوئی بھی قرارداد جاری نہیں کی، حالانکہ اسرائیلی حکومت نے اب تک ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے اور ڈیمونا جیسی ایٹمی تنصیبات ایجنسی کی نگرانی سے باہر ہیں اور اس کی سرگرمیاں ایجنسی کے حفاظتی اصولوں سے ماوراء ہیں۔

ایوانز مزید لکھتے ہیں کہ 2018 میں اسرائیل نے دعوی کیا کہ اس نے ایران کے مبینہ ایٹمی آرکائیو سے متعلق کچھ معلومات IAEA کو فراہم کی ہیں، جس کے نتیجے میں ایران کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں پر شک و شبہات پیدا کیے گئے اور معائنوں میں اضافہ ہوا۔ حیرت انگیز طور پر IAEA نے یہ معلومات قبول کر لیں، حالانکہ اسرائیل نہ صرف NPT کا رکن نہیں بلکہ خود ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ایک جارح اور غیر ذمہ دار طاقت ہے۔ یہ رویہ ایجنسی کی غیر جانبداری کے دعوے کی کھلی تردید ہے۔

ایوانز اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وکی لیکس کی 2010 کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق، یوکیا آمانو جو 2009 سے 2019 تک IAEA کے ڈائریکٹر جنرل رہے، امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے تھے۔ ایک لیک شدہ سفارتی مراسلہ بتاتا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ، آمانو کو ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق معاملات میں ایک مضبوط امریکی حامی سمجھتی تھی، اور مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے ایران کے حساس مقامات سے حاصل کردہ اہم معلومات کو CIA اور اسرائیلی انٹیلی جنس کے ساتھ شیئر کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق، ایران ایسے حالات میں عالمی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے جب کہ اس کے ایٹمی پروگرام کے خطرناک ہونے کے بارے میں کوئی معتبر اور قطعی دلیل پیش نہیں کی گئی۔ اس کے باوجود ایران سے بے جا مطالبات کیے جا رہے ہیں، جبکہ اسرائیل کے خلاف نہ تو کوئی بین الاقوامی دباؤ ہے اور نہ ہی کوئی عالمی قرارداد سامنے آئی ہے جو اسے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شمولیت یا اس کی ایٹمی تنصیبات پر بین الاقوامی معائنے کی پابند بنائے۔ مزید یہ کہ، امریکہ نے نہ صرف IAEA بلکہ اقوام متحدہ کی کسی بھی ممکنہ کارروائی کو روکا ہے جو اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کی مذمت پر مبنی ہو سکتی تھی، حالانکہ مردخای وانونو نامی اسرائیلی ایٹمی سائنسدان کی 1980 کی دہائی میں دی گئی شہادتیں اور انکشافات، اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کے وجود کا ناقابل تردید ثبوت فراہم کرتی ہیں۔

ایوانز اس متعصبانہ اور منافقانہ رویے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں اور ایٹمی عدم پھیلاؤ کے موجودہ نظام کو ایٹمی نسلی امتیاز پر مبنی ایٹمی نظام کا نام دیتے ہیں۔ ان دوہرے معیاروں نے اس نظام کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

ایوانز لکھتے ہیں کہ ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کا ایران کے ساتھ برتاؤ اس بات کا ثبوت ہے کہ بین الاقوامی ادارے مغربی سامراج کے اسٹریٹجک ہتھیار بن چکے ہیں، جن کا مقصد مغربی ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے، نہ کہ عالمی امن و سلامتی کا تحفظ۔

ایوانز موجودہ عالمی نظام کی تلخ حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں کہ اگر تم امریکہ کے دوست ہو، تو تم ایٹمی ہتھیار بنا سکتے ہو اور کوئی تمہیں سزا نہیں دے گا۔ لیکن اگر تم امریکہ کے مخالف ہو، تو تمہیں پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال کا حق بھی نہیں دیا جائے گا۔ یہ عدم پھیلاؤ کا قانون نہیں، بلکہ قانون کے پردے میں دوسروں پر ایک جابرانہ مسلط شدہ نظام ہے۔ اس طرح IAEA نہ تو عالمی سلامتی کی محافظ ہے اور نہ ہی غیرجانبدار ادارہ، بلکہ ایک نسلی امتیاز پر مبنی ظالمانہ ایٹمی نظام کا نفاذ کرنے والا آلہ ہے۔

News ID 1934093

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha