مہر خبر رساں ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق، صیہونی حکومت نے ایک بار پھر بربریت کی حدیں عبور کر لی ہیں؛ اس بار فوجیوں پر میزائل داغنے سے نہیں، بلکہ امدادی خیموں اور ایمبولینسوں پر فائرنگ کر کے، جنہوں نے اپنے سائرن سے لوگوں کے بچاؤ کا وعدہ کیا تھا، اور ان امدادی کارکنوں پر جن کے ہاتھ جنگ کے لیے نہیں، بلکہ زندگی بچانے کے لیے اٹھائے گئے تھے۔
ہاں، دشمن مرہم پٹی سے بھی ڈرتا ہے۔ وہ ہزار میزائلوں سے زیادہ انجکشن، سیرم، بچے کے زخم پر جھکنے والی نرس سے ڈرتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جہاں طبی امداد جاری ہے وہاں زندگی چل رہی ہے۔ اور جہاں زندگی ہے وہاں مزاحمت اور مقاومت ہے۔
اس بربریت کے سامنے ایمبولینس آپریٹر ، نرسیں اور طبی عملہ کھڑا ہے۔ جو زخمی جسموں، جن کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز اور دل ایمان سے لبریز آج بھی آگ میں جل رہے ہیں۔
ایمبولینس جلتا ہے لیکن انسانیت کی آواز خاموش نہیں ہوتی۔ کلینک کی دیواریں گر جاتی ہیں لیکن خدمت انسانی کے جوش و جذبہ کے ستون کھڑے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی حملہ بچانے والوں کے قد کو نہیں جھکا سکا۔
ہلال کے سفید خیمے پر حملہ کرنے والے اپنے ہی سائے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن اس طرف ایرانی اور مسلمان امدادی کارکن پہاڑوں کی طرح کھڑے ہیں۔ ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں، کوئی زرہ نہیں، لیکن ان کے پاس دل ہیں، ان کے پاس عزم ہے اور فولاد سے بھی زیادہ مضبوط ایمان ہے۔
دنیا جان لے: اگر آج انسانیت کے دشمن زخمیوں کی امداد سے بھی باز نہ آئے تو ہم اپنے انسانی ہمدردی کے عہد پر قائم رہنے میں ناکام نہیں ہوں گے۔
ہاں !ہم گولیوں کی بارش میں بھی امدادی کاروائیاں جاری رکھتے ہیں!
ہم دھول اور دھوئیں کے درمیان بھی انسانیت کو بچاتے ہیں!
ہم خالی ہاتھ جان بچانے جاتے ہیں اور دشمن مسلح ہوکر جانیں لینے کے لیے جاتے ہیں۔
اور کل تاریخ لکھی جائے گی
ان دنوں کی تاریخ! جب صیہونیت آگ اور خون کے ساتھ آئی تھی جبکہ انسانیت کی زندگی بچانے والے محبت، ایمان، استقامت کے ساتھ رہے اور وہ جیت گئے۔
آپ کا تبصرہ