مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: صدر ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس دوبارہ آمد کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔ ان مذاکرات کا پہلا دور 11 اپریل 2025 کو عمان کے دارالحکومت مسقط میں بند دروازوں کے پیچھے منعقد ہوا۔ یہ اجلاس زیادہ تر پیغامات کے تبادلے اور فریقین کے درمیان سفارتکاری کے عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے آمادگی پر مرکوز تھا۔
اس کے بعد مذاکرات کا دوسرا دور 19 اپریل 2025 کو اٹلی کے شہر روم میں عمان کی ثالثی میں منعقد ہوا۔ ذرائع کے مطابق مذاکرات کا عمومی ماحول مثبت تھا۔ کہا جارہا ہے کہ اس سلسلے کا تیسرا اجلاس چند دنوں میں مسقط میں دوبارہ منعقد ہوگا۔ ان تین اجلاسوں کا تسلسل ایران اور واشنگٹن کے درمیان موجود مسائل کو حل کرنے کی سست مگر مسلسل کوشش کی عکاسی کرتا ہے۔
مذاکرات کے مثبت ماحول کے باوجود امریکی حکام کی متضاد بیانات اور اقدامات نے اس ماحول کو پیچیدہ کردیا ہے۔ ایران کے جوہری حق سے متعلق موقف میں اچانک تبدیلی سے لے کر نئی پابندیوں کے نفاذ اور بالواسطہ مذاکرات جاری ہونے کے باوجود براہ راست مذاکرات پر اصرار، یہ سب امریکی پالیسی میں عدم استحکام اور تضاد کے واضح اشارے ہیں۔ اس تحریر میں امریکی پالیسی اور بیانات میں تضادات کے چند نمونے پیش کیے جارہے ہیں۔
1. یورینیم کی افزودگی سے متعلق موقف میں اچانک تبدیلی
امریکہ کے رویے میں تضاد کی ایک اہم نشانی یہ تھی کہ امریکی نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکاف نے ایران کے لیے یورینیم کی افزودگی کے حق سے متعلق متضاد بیانات دیے۔ انہوں نے 17 اپریل کو فوکس نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ امریکی حکومت ایران کے لیے 67۔3 فیصد یورینیم کی افزودگی کی اجازت دینے پر راضی ہوسکتی ہے، بشرطیکہ ایران بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے انسپکٹرز کو مکمل رسائی کی ضمانت دے۔ یہ بیان عالمی سطح پر ایک لچک یا نرمی کے طور پر دیکھا گیا۔ لیکن کچھ ہی گھنٹوں بعد وٹکاف کے دفتر اور امریکی نیشنل سیکیورٹی کونسل کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ایران کی زمین پر کوئی یورینیم افزودگی قابل قبول نہیں ہے اور امریکہ تب تک کوئی معاہدہ کرنے کو تیار نہیں ہوگا جب تک ایران اپنے جوہری پروگرام کو ختم نہیں کردیتا۔ اس بیان میں ٹرمپ معاہدے کا ذکر کیا گیا تھا، جو 2018 میں ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد ایک زیادہ جارحانہ پوزیشن کی عکاسی کرتا تھا۔ یہ متضاد بیان نہ صرف امریکی سفارتی ٹیم میں ہم آہنگی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ اس بیان نے ایران کو شدید بےاعتمادی میں مبتلا کردیا۔ بعض نے اس تضاد کو ٹرمپ کی حکومت میں داخلی اختلافات سے جوڑا۔
2. براہ راست مذاکرات پر اصرار
امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات کے طریقہ کار پر اختلافات ہیں۔ اسٹیو وٹکاف نے بار بار امریکی میڈیا میں ایران کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے آغاز کا ذکر کیا اور اس بات کو نئی حکومت کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ تاہم ایرانی حکام نے اس دعوے کو صاف طور پر مسترد کردیا۔
یہ تضاد نہ صرف دونوں فریقین کے موقف میں فرق کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ عوامی سطح پر مذاکرات کے بارے میں دو مختلف تصورات پیدا کرتا ہے۔ واشنگٹن ان مذاکرات کو ایران کی عقب نشینی اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
ماہرین کے مطابق امریکہ کے اس دوہری رویے کی وجہ ٹرمپ کی حکومت کے اندرونی سیاسی اختلافات اور عوامی رائے کو منظم کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ ٹرمپ جو خود کو ایران کے خلاف سخت پالیسی کا معمار سمجھتے ہیں، نہیں چاہتے کہ مذاکرات اس انداز میں نظر آئیں جیسے امریکہ اپنے پچھلے موقف سے پیچھے ہٹ رہا ہو۔ اس لیے بعض امریکی حکام مذاکرات کے ماحول کو اپنے حق میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ یہ ظاہر ہوسکے کہ ایران کو براہ راست مذاکرات کے لیے مجبور کیا جارہا ہے۔
3. مذاکرات کے ساتھ نئے پابندیوں کا نفاذ
امریکی رویے میں ایک اور اہم تضاد یہ ہے کہ ایک طرف وہ مذاکرات کی بات کررہا ہے اور دوسری طرف ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کر رہا ہے۔ امریکی حکام نے بار بار کہا ہے کہ وہ ایک نئے معاہدے کے لیے آمادہ ہیں، لیکن 9 اپریل 2025 کو امریکی وزارت خزانہ نے ایرانی جوہری صنعت سے متعلق چند اداروں کو نئی پابندیوں کی فہرست میں شامل کرلیا۔ یہ اقدام روم میں ہونے والے دوسرے
مذاکرات سے چند دن پہلے کیا گیا تھا اور اس نے ایران کو ایک منفی سیاسی پیغام دیا۔ مذاکرات کے دوسرے دور سے پہلے امریکہ نے ایران کے خلاف پابندیاں بھی عائد کیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں نے اس دوہری پالیسی کو امریکہ کی خارجہ پالیسی میں عدم ہم آہنگی اور فیصلہ سازی میں بحران قرار دیا۔ ایران کے خلاف نئی پابندیاں نہ صرف مذاکرات کی روح کے خلاف ہیں، بلکہ یہ اس بات کا اشارہ ہیں کہ وائٹ ہاؤس عملی معاہدہ کرنے کی حقیقی نیت نہیں رکھتا ہے۔
4. ایران کے بارے میں دفاعی متضاد بیانات
امریکہ نے جہاں ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے مثبت پیغامات بھیجے ہیں، وہیں فوجی سطح پر متضاد پیغامات بھی دیے ہیں۔ مثال کے طور پر روم میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے دوران پینٹاگون نے خلیج فارس میں دوبارہ ایئرکرافٹ کیریئر بھیجنے کا اعلان کیا۔ اگرچہ اس کو دفاعی مقصد کے تحت ہونے والا اقدام قرار دیا گیا لیکن ایران کی نگاہ میں یہ طاقت کا مظاہرہ اور ایک دھمکی کا حصہ تھا۔
دوسری جانب کچھ امریکی حکام نے میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے ساتھ کسی فوجی تصادم کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور خطے میں فوجیوں کی موجودگی کا مقصد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کا تحفظ ہے۔ یہ تمام پیغامات اگرچہ دفاعی دکھائی دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ سفارتی ماحول کے ساتھ تضاد رکھتے ہیں۔
5. دوہری شہریت رکھنے والے قیدیوں کے ساتھ مختلف سلوک
روم مذاکرات کے دوران امریکی حکام نے کہا کہ واشنگٹن قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں بات کرنے کے لیے تیار ہے اور اسے انسانی ہمدردی اور اعتماد سازی کی علامت قرار دیا۔ تاہم اسی وقت امریکی وزارت انصاف نے دو ایرانی-امریکی شہریوں کے خلاف نئی فوجداری مقدمات درج کیے، جن میں سے ایک پر پابندیوں کی خلاف ورزی کا الزام تھا۔ ایران کے لیے یہ دوہرا سلوک اس بات کا اشارہ تھا کہ امریکہ قیدیوں کے مسئلے کو انسانی بنیادوں پر نہیں، بلکہ سیاسی دباؤ کے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کررہا ہے۔
حاصل سخن
ایران کے ساتھ مذاکرات کے دوران امریکہ کے رویے اور پالیسیوں کا جائزہ لینے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ واشنگٹن نے ایک غیر ہم آہنگ اور منتشر خارجہ پالیسی اختیار کی ہے۔ جوہری افزودگی، مذاکرات کی نوعیت، پابندیاں، سیکیورٹی پالیسیوں اور حتی کہ قیدیوں کے مسئلے پر جو تضادات دیکھے گئے ہیں، وہ امریکہ کے فیصلہ ساز اداروں یا ٹرمپ کی ٹیم میں کوئی واضح ہم آہنگی نہ ہونے کا عکاس ہیں۔
ایران کے نقطہ نظر سے اس قسم کے متضاد رویے نہ صرف غلط پیغامات دیتے ہیں بلکہ اعتماد سازی کو بھی مشکل بنادیتے ہیں۔ ایران مذاکرات کو مشروط اور محتاط انداز میں آگے بڑھا رہا ہے؛ کیونکہ جب ہر مثبت پیغام کے ساتھ کوئی منفی اقدام جڑا ہو تو معاہدے تک پہنچنے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔ یہ دونوں کے درمیان بےاعتمادی، کئی سالوں کے تصادم اور تلخ تجربات کا نتیجہ ہے۔ امریکہ کا متضاد رویہ اس میں مزید اضافہ کررہا ہے۔ لہذا اگر ٹرمپ انتظامیہ واقعی ایران کے ساتھ ایک نیا اور پائیدار معاہدہ چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے اپنی پالیسی میں ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے شفافیت، تسلسل لانا پڑے گا۔
آپ کا تبصرہ