مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: تقریبا دو مہینے عارضی جنگ بندی اور سکھ کا سانس لینے کے بعد غزہ کے شہریوں نے دوبارہ خونخوار صہیونی حکومت کے حملوں کا سامنا کرنا شروع کیا ہے۔ منگل کو علی الصبح غزہ کے باسی ایک بار پھر بم دھماکوں اور گولہ باری کی آوازوں سے نیند سے جاگے۔ اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں میں محض پانچ گھنٹوں کے اندر 320 سے زائد فلسطینی شہید جبکہ سینکڑوں کو زخمی اور لاپتہ ہوگئے ہیں۔
حماس اور اسرائیلی حکومت کے درمیان 15 مہینے جاری رہنے والی جنگ کے بعد جنگ بندی طے پائی تھی، جس کے تحت جنوری میں پہلے مرحلے کے دوران فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا گیا۔ تاہم، مارچ میں پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے باوجود دوسرا مرحلہ کبھی نافذ نہیں ہوسکا۔
جنگ بندی کے دوران بھی اسرائیل نے متعدد بار معاہدے کی خلاف ورزی کی، عام شہریوں کو نشانہ بنایا، گذرگاہیں بند کیں اور غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل روک دی۔
اسرائیل نے چند وجوہات کی بنا پر اس جنگ بندی کو تسلیم کیا تھا، جن میں جنگ کے طویل ہونے سے اسرائیلی فوج کی جسمانی و نفسیاتی کمزوری، غزہ کے محاصرے کے باوجود فلسطینی مزاحمت کی مسلسل کارروائیاں اور اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلخانہ اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے دباؤ شامل ہیں۔
جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں کچھ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بعد نتن یاہو اور اس کی کابینہ پر داخلی دباؤ جزوی طور پر کم ہوگیا۔ تاہم ان کے لیے ایک بڑا چیلنج شدت پسند دائیں بازو کی جماعتوں کو قابو میں رکھنا تھا جو جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کو مسترد کرچکی تھیں ہیں اور ممکنہ طور پر حکومت سے علیحدہ ہونے کا الٹی میٹم دے چکی تھیں۔
امریکہ نے ابتدا میں ثالث کے طور پر سامنے آنے کے بعد اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی۔ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق، ایک اسرائیلی عہدیدار نے انکشاف کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو غزہ پر دوبارہ حملوں کی اجازت دے دی ہے۔ عہدیدار کے مطابق تل ابیب نے پہلے ہی واشنگٹن کو اپنے جارحانہ منصوبے سے آگاہ کر دیا تھا، جس کی وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بھی تصدیق کی ہے۔
حماس نے حالیہ ہفتوں میں کئی بار خبردار کیا ہے کہ اسرائیل امریکی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے اور مذاکرات کے دوسرے مرحلے کو ناکام بنانے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے تاکہ جنگ دوبارہ شروع کرنے کا جواز حاصل کرسکے۔
حماس کا واحد مطالبہ یہ تھا کہ پہلے سے طے شدہ جنگ بندی کے مطابق دوسرے مرحلے پر عمل کیا جائے۔ تاہم صہیونی غزہ نے افواج کے انخلاء کے بغیر ہی پہلے مرحلے میں توسیع کی کوشش کی اور جنگ مکمل ختم کرنے کی کوئی ضمانت بھی نہیں دی۔
امریکہ جو خود کو ثالث ظاہر کر رہا تھا، درحقیقت لالچ اور دھمکی دونوں سے کام لے رہا تھا۔ ایک طرف اس نے جنگ بندی میں ایک ماہ کی توسیع کی تجویز دی، جس کے بدلے میں کچھ اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ دوسری طرف، اس نے غزہ پر جنگ دوبارہ مسلط کرنے کی دھمکیوں میں اضافہ کردیا، تاکہ حماس پر دباؤ برقرار رکھا جاسکے۔
اسرائیل کی جنگ بندی معاہدے سے روگردانی اور امریکہ کی کھلی حمایت نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ واشنگٹن بین الاقوامی معاہدوں کے حوالے سے کسی بھی لحاظ سے ذمہ دار اور قابل اعتماد نہیں ہے۔
آپ کا تبصرہ