مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کے نتیجے میں رہا ہونے والے صہیونیوں اور فلسطینیوں کی قید کے دوران کی کہانی سے مقاومت اور صہیونی حکومت کے درمیان موجود فرق سامنے آیا ہے۔
جنگ بندی کے معاہدے کے نتیجے میں قیدیوں کے تبادلے کے چار مراحل مکمل ہوئے ہیں۔ اس دوران رہا ہونے والے فلسطینی اور اسرائیلی قیدیوں کی جسمانی حالت میں نمایاں فرق دیکھا جاسکتا ہے۔
صہیونی جارحیت سے تباہ حال غزہ میں مقاومت کے ہاتھوں یرغمال صہیونی صاف ستھرے کپڑوں میں اور بہتر جسمانی حالت میں نظر آئے جبکہ اسرائیلی جیلوں سے رہا کیے جانے والے فلسطینی قیدیوں پر تشدد، بھوک اور نفسیاتی اذیت کے آثار واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔
قیدیوں کے تبادلے کے چار مراحل میں رہا کیے گئے فلسطینی قیدیوں کی ابتدائی تصاویر سے ان کے وزن میں نمایاں کمی واضح ہوتی ہے۔ کچھ قیدیوں کی تصاویر یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ جسمانی کمزوری کے باعث چلنے سے بھی قاصر ہیں، اور کچھ کو تو رہائی کے فورا بعد اسپتال منتقل کرنا پڑا۔
دوسرے مرحلے میں رہا ہونے والے فلسطینی عبدالرحمان حسان وشاح نے کہا کہ اسرائیلی جیل میں داخل ہوتے وقت ان کا وزن 115 کلوگرام تھا لیکن مسلسل تشدد اور بھوک کی وجہ سے جب رہا ہوا تو اس کا وزن صرف 55 کلوگرام رہ گیا تھا۔
مغربی کنارے کے جنوبی شہر بیت لحم سے تعلق رکھنے والے بھا عویسات کہتے ہیں کہ ہم روزانہ بھوک، بیماری اور شدید ترین توہین کا سامنا کرتے رہے اور یہ صورتحال جیل میں آخری وقت تک برقرار رہی۔
اس کے برعکس صہیونی قیدی رہائی کے وقت جسمانی طور پر اچھی حالت میں تھے۔ یہاں تک کہ آزادی کے وقت انہیں تحائف بھی دیے گئے۔
صہیونی یرغمالیوں نے انٹرویوز میں کہا کہ غزہ میں اسیری کے دوران ان کے لیے صرف اسرائیلی بمباری کا خوف تھا جس کے نتیجے میں ان کی موت یا زخمی ہونے کا خطرہ تھا۔
گزشتہ ہفتے رہا ہونے والی ۴ اسرائیلی خواتین قیدیوں کی جسمانی حالت اتنی اچھی تھی کہ کچھ سوشل میڈیا صارفین نے ان کی صحت کو حماس کے زیر انتظام قید خانوں میں نشہ آور ادویات یا نفسیاتی دوائیوں کے استعمال سے جوڑا، تاہم ان کا مکمل معائنہ کرنے کے بعد یہ ثابت ہوا کہ ان کی جسمانی حالت ٹھیک ہے اور انہوں نے کسی بھی قسم کے نشے یا نفسیاتی ادویات کا استعمال نہیں کیا۔
حماس نے قیدیوں کے تبادلے کے پہلے مرحلے کے اختتام پر اعلان کیا کہ فلسطینی قیدیوں کی جسمانی حالت اور اسرائیلی خواتین قیدیوں کی حالت کے درمیان واضح فرق مقاومت کے اچھے اخلاق اور قابض صہیونیوں کی وحشی طبیعت کی عکاسی کرتا ہے۔
اسی حوالے سے اسرائیلی اخبار ہآرٹز نے لکھا کہ ریڈ کراس کے اہلکار اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ سلوک پر نہایت ہی برہم ہوئے۔ ان کا ایک بڑا اعتراض یہ تھا کہ فلسطینی قیدیوں کے ہاتھوں کو ان کے پیچھے باندھ دیا گیا تھا جو انتہائی تکلیف دہ تھا۔
آپ کا تبصرہ