مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: محمد علی تخت رونده: غزہ کے خلاف 471 دن کی جارحیت کے بعد آج رسمی طور پر جنگ بند ہو گئی ہے اور غزہ کے بہادر عوام 15 ماہ سے زائد عرصہ مزاحمت جاری رکھنے کے بعد اپنے تباہ شدہ گھروں کو لوٹ گئے ہیں۔
غزہ جنگ میں صیہونی رجیم کی شکست اور رسواکن ناکامی کو کئی واضح دلائل کے ساتھ ثابت کیا جا سکتا ہے:
1۔ فلسطینی عوام کے جذبے اور عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی
اسرائیلی میڈیا حلقوں کے مطابق غزہ سے نشر ہونے والے مناظر بہت ہی عجیب ہیں فلسطینی اپنے تباہ شدہ گھروں کے کھنڈرات پر جھنڈے اٹھا کر فتح کا جشن مناتے ہیں۔ صہیونیوں کے مطابق غزہ سے شائع ہونے والی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وحشیانہ جارحیت اور نسل کشی کے باوجود فلسطینیوں کے عزم اور جذبہ مقاومت میں بالکل بھی کمی نہیں آئے ہے۔
2. نیتن یاہو کی جنگ کے اعلان کردہ اہداف کو پورا کرنے میں واضح ناکامی
غزہ جنگ کے اہداف کے بارے میں صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کی تقریریں اس رجیم کی شکست کی حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں۔ کیونکہ حماس تباہ نہیں ہوئی، فلسطینی مزاحمت کو ختم نہیں کیا جاسکا اور نہ ہی غزہ پر کسی اسرائیل نواز حکومت کو مسلط کیا جا سکا۔ گویا کوئی ایک بھی ہدف حاصل نہیں ہوا۔ جب کہ نیتن یاہو کو اب پہلے سے زیادہ مربوط اور متحد ایک فلسطینی معاشرے کا سامنا ہے۔
3۔ تل ابیب کی بین الاقوامی تنہائی اور عالمی سطح پر عوامی نفرت
اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور غزہ میں ہونے والی تباہی پر وسیع پیمانے پر تنقید کی وجہ سے بین الاقوامی منظر نامے میں اس رجیم کا امیج پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہو گیا ہے اور جنگ بند ہونے کے اگلے ہی دن صہیونی مجرموں کو عالمی عالمی رائے عامہ کے بے مثال ردعمل اور غم و غصے کا سامنا ہے۔
4. صیہونی حکام کے خلاف جاری وارنٹ گرفتاری
بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے صیہونی حکام بشمول نیتن یاہو اور وزیر جنگ یواف گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری کو تل ابیب کے اتحادیوں کی پالیسیوں کے لیے سخت دھچکا سمجھا جاتا ہے۔
5۔ اسرائیل کے داخلی انتشار میں اضافہ
جنگ سے متعلق حالیہ واقعات کے نتیجے میں صہیونی معاشرہ گہری تقسیم اور خوف ناک اتشار کا شکار ہوا ہے۔ غزہ جنگ کے جاری رہنے پر صہیونی طبقے کے ایک بڑے حصے کی تنقید میں شدت اسرائیل کے داخلی انتشار میں اضافے کا باعث بنی ہے اور اب جنگ بند ہونے کے بعد بھی نیتن یاہو کو کابینہ کے اندر موجود انتشار کو روکنا ہوگا، خاص طور پر داخلی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر کی علیحدگی ایک ایسا واقعہ جس نے نیتن یاہو کابینہ کو شدید انتشار کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔
آپ کا تبصرہ