مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ویب سائٹ "خامنہ ای ڈاٹ آئی آر" نے ماہ رجب المرجب کے بابرکت ایام کے موقع پر رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے دعائے ماہ رجب کی شرح سے متعلق بیانات کو شائع کیا ہے۔
ذیل میں ان نکات کے مرکزی پیغام کو بیان کیا گیا ہے:
بسم الله الرّحمن الرّحیم
«یا مَن اَرجوُه لِکُلّ خَیر»؛
اے وہ، جس سے مجھے بھلائی کی امید ہے"؛ یعنی میں اگر مجھ سے کوئی نیکی سرزد ہوجائے تو اس سے اجر کی امید رکھتا ہوں۔
آپ جو بھی نیک کام کرتے ہیں، یہ امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر عطا کرے گا۔ لیکن دوسری طرف،"وَ آمَنُ سَخَطَهُ عِندَ کُلِّ شَرّ" تمام برائیوں سے محفوظ رکھنے کی آس بھی لگاتے ہیں؛ اور اپنے آپ کو غضب الہی سے محفوظ سمجھنے لگتے ہیں۔
اگر کوئی شخص اپنے آپ کو خدا کے غضب سے محفوظ نہیں سمجھتا تو وہ یقینا برے کام انجام نہیں دے گا۔ اگر کوئی مثال کے طور پر، غیبت کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے، لیکن خدا کے غضب اور ناراضگی کا احساس اس کے اندر نہیں جاگا ہے تو گویا اس شخص نے خدا کے غضب سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رکھا ہے۔
قابل غور ہے کہ جب بھی ہم کوئی اچھا کام کرتے ہیں تو یہ امید کرتے ہیں کہ خدا ہمیں اجر دے گا، مثال کے طور پر ہم دو رکعت نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں یا صدقہ دیتے ہیں تو ہم یہ امید کرتے ہیں کہ خدا ہمیں اس کام کا اجر دے گا۔ ٹھیک ہے، آپ اپنے اچھے کاموں پر خدا سے فضل اور محبت کی امید رکھتے ہیں، لیکن اپنے برے کاموں پر اللہ کے غضب اور ناراضگی سے ڈریں!
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق متوازن نہیں ہے، جس سے ہم اچھے اعمال کے پاداش کی توقع تو رکھتے ہیں لیکن برے کاموں کے ارتکاب کے وقت خدا کو بھول جاتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ خیال کر بیٹھے ہیں کہ خدا ہم سے ناراض نہیں ہوا اور ہم پر اس کا غضب نازل نہیں ہوا! لہذا اس خوش فہمی میں مبتلاء ہوجاتے ہیں کہ ہم اس کے غضب سے محفوظ ہیں، جب کہ یہ نہایت خطرناک تصور ہے جو انسان کو احکام خدا کے مقابلے میں مزید جری بنا دیتا ہے۔ ہونا یہ چاہئیے کہ ہم نیک کاموں پر خدا سے فضل کی امید رکھیں جب کہ برے اعمال سرزد ہونے پر اس کے غضب اور ناراضگی کے خوف سے فورا توبہ کریں تاکہ تہذیب نفس حاصل کر سکیں۔
آپ کا تبصرہ