مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس میزائل سسٹم (THAAD) امریکی فوج کے تہہ دار فضائی دفاعی نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ بیلسٹک میزائلوں کو 150 سے 200 کلومیٹر تک مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ Hit to kill کا طریقہ استعمال کرتا ہے، یعنی یہ آنے والے میزائل کو تباہ کرنے کے لیے دھماکہ خیز مواد کی بجائے براہ راست حرکی توانائی پر انحصار کرتا ہے۔
یکم اکتوبر کو ایران نے سیکڑوں بیلسٹک میزائلوں سے کئی اسرائیلی فوجی مراکز کو کامیابی سے نشانہ بنایا، اس آپریش وعدہ صادق 2 کے بعد اسرائیل کے میزائل شکن دفاعی نظام کو شکست فاش ہوئی جس پر امریکا نے تل ابیب کی حمایت کے لیے اپنا THAAD نظام تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس مقصد کے لیے، پینٹاگون کے پریس سیکریٹری میجر جنرل پیٹرک رائڈر نے THAAD کی تعیناتی کی تصدیق کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس نظام کو اسرائیل کے فضائی دفاع کو تقویت دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
امریکی فوجی اہلکاروں کی ایک پیشگی ٹیم اور THAAD بیٹری کو چلانے کے لیے ضروری ابتدائی اجزاء پیر کو مقبوضہ علاقوں میں پہنچادئے گئے۔
رائڈر کے مطابق، آنے والے دنوں میں، اضافی امریکی فوجی اہلکار اور THAAD بیٹری کے پرزے اسرائیل پہنچیں گے اور مستقبل قریب میں یہ بیٹری مکمل طور پر کام کرے گی۔
اگرچہ امریکہ نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ وہ خطے میں امن اور جنگ بندی کا حامی ہے لیکن وہ ہمیشہ اسرائیل کی جارحیت اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والے اقدامات کی پشت پناہی کرتا رہا ہے۔
بہت سے ماہرین کے مطابق، THAAD سسٹم کو مقبوضہ سرزمین میں تعینات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خطے کی کشیدگی میں واشنگٹن کی براہ راست اور زیادہ شمولیت امریکی دعووں کے برعکس خطے کو وسیع تر تصادم اور عدم استحکام کی طرف لے جا سکتی ہے۔
نیٹو میں ترکی کے سابق مستقل نمائندے امت پامیر نے کہا کہ میرے خیال میں امریکی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور ہوں گے چاہے اس کی کچھ بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔
استنبول کی مارمارا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کی کل وقتی فیکلٹی ممبر بلگیہن الگوز بھی کہتی ہیں کہ امریکہ کا THAAD دفاعی نظام جسے اسرائیل میں تعینات کرنے کا منصوبہ ہے، یہ حملہ آور بیلسٹک میزائلوں کو مار گرانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس کی مختصر اور درمیانی حدود میں میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ایران کی جانب سے تیسرے میزائل حملے کی صورت میں امریکہ اسرائیل کے دفاع میں زیادہ فعال کردار ادا کرے گا۔ اس اقدام کا مقصد ایران کے خلاف ڈیٹرنس بڑھانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے یقین ہے کہ امریکہ ایک نئے سفارتی نقطہ نظر کی تیاری کر رہا ہے جو ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کو ترجیح دے گا۔" اگرچہ موجودہ انتخابی موسم کے دوران یہ کوششیں عوامی طور پر نظر نہیں آئیں گی، لیکن میں توقع کرتی ہوں کہ کملا ہیرس اور ٹرمپ دونوں ایران کے ساتھ سفارت کاری کو آگے بڑھائیں گے۔
اگر ٹرمپ دوبارہ منتخب ہوتے ہیں، تو اس حکمت عملی میں ایران پر دباؤ بڑھ سکتا ہے، لیکن سب سے بڑا ہدف وہی رہے گا۔
الگوز نے مزید کہا کہ میں اسرائیل میں THAAD سسٹم کی تعیناتی کو امریکہ کے ڈیٹرنس کے عزم کی عکاسی کے طور پر دیکھتی ہوں۔
جاپان میں انسٹی ٹیوٹ آف انرجی اکنامکس سینٹر کی ڈائریکٹر، سچی ساکاناشی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ "کیا THAAD سسٹم کی تعیناتی کا مطلب موجودہ تناؤ میں امریکہ کی براہ راست شمولیت نہیں ہے جو خطے میں تناؤ کو بڑھا سکتا ہے اور خطے کو غیر مستحکم کر سکتا ہے؟"کہا کہ یقینا یہ خطرہ تو ہے، تاہم مجھے پوری امید ہے کہ ایران کی فعال سفارت کاری کشیدگی کو کم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ تنازع کے پھیلاؤ سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔
روس کے اسپونک کے مغربی ایشیا (مشرق وسطی) سیکشن کے چیف ایوان زاخروف نے بھی کہا کہ اسرائیل میں THAAD اینٹی میزائل سسٹم کی ممکنہ تعیناتی علاقائی استحکام اور مشرق وسطیٰ کی کشیدگی میں امریکہ کی شمولیت کے حوالے سے کئی اہم سوالات کو جنم دیتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ یہ تعیناتی اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکہ کی وابستگی کا حصہ ہے، یہ ممکن ہے کہ THAAD سسٹم بھیجنے کو دوسرے علاقائی کرداروں کو اشتعال دلانے کا مترادف سمجھا جائے گا، جس سے ممکنہ طور پر کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
زخاروف نے مزید کہا کہ ناقدین کا استدلال ہے کہ چونکہ THAAD سسٹم نے صرف کنٹرول شدہ ماحول میں ہی کامیاب مداخلت کا مظاہرہ کیا ہے، اس لیے حقیقی دنیا کے منظرناموں میں ان کی عملی تاثیر غیر یقینی ہے۔ نتیجتاً، اس تعیناتی کو علاقائی سطح پر نمایاں بہتری کے بجائے ایک علامتی اشارہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
مزید برآں، کچھ ماہرین کا قیاس ہے کہ امریکہ اسے اپنے ایسے مہنگے آلات کھپانے کے موقع کے طور پر استعمال کر رہا ہے جو اب اس کی اپنی قومی دفاعی ضروریات کے لیے ضروری نہیں سمجھے جاتے۔
تاہم مجموعی طور پر علاقائی حرکیات پر اس فیصلے کے مضمرات کا انحصار مشرق وسطیٰ کے اہم کھلاڑیوں کے ردعمل پر ہوگا۔
انٹرویو؛ پیمان یزدانی سحر دادجو
آپ کا تبصرہ