مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ گذشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کی طرف سے طوفان الاقصی آپریشن کے بعد اسرائیل نے غزہ میں فلسطینی نہتے شہریوں کے خلاف انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں۔ اس کے باوجود صہیونی فورسز کو مختلف محاذوں پر فلسطینی مجاہدین نے عبرت آمیز شکست دی ہے۔ صہیونی حکومت کی شکست صرف دفاعی شعبے تک محدود نہیں بلکہ اسرائیل معاشی، سیاسی اور سفارتی میدان میں بھی رسوائی کا شکار ہوچکا ہے۔
صہیونی حکومت کی پے در پے شکستوں سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ صہیونی معاشرے کی بنیاد نہایت کمزور ہے اور مختصر بحران سے اس کی بنیادیں ہل سکتی ہیں۔ فلسطین پر قبضے کے لئے صہیونیوں کے دلائل جڑ سے نابود ہوگئے ہیں بلکہ صہیونیت کا وجود ہی خطرے میں پڑگیا ہے۔ اگرچہ طوفان الاقصی کے بعد فلسطینی عوام نے سنگین قیمت ادا کی ہے تاہم یہ صورتحال فلسطینی عوام کے لئے نئی نہیں بلکہ امریکی حمایت کے تحت صہیونیوں کے قبضے کے بعد سے ہی فلسطینی عوام انتہائی کربناک صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک کی ہمہ جہت حمایت کے باوجود اسرائیل کو ہونے والے نقصانات کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ہے۔ صہیونی محفلوں کے اندر اسرائیلی فوج کی ناکامی اور سقوط کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ اسرائیلی فوجی افسران اور اہلکاروں کی بڑی تعداد ڈیوٹی دینے سے معذوری ظاہر کرچکی ہے۔
اس سلسلہ تحریر میں طوفان الاقصی کے بعد تل ابیب کو دفاعی اور اقتصادی نقصانات کے علاوہ عالمی سطح پر سیاسی اور سفارتی شعبے میں ہونے والی ناکامیوں کا مختصر جائزہ لیا جائے گا۔
طوفان الاقصی میں صہیونی حکومت کو ہونے والے اسٹریٹیجک نقصانات
1۔ طوفان الاقصی آپریشن نے صہیونی حکومت کی دفاعی طاقت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ صہیونی حکومت نے دو بنیادی اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے غزہ پر حملہ کیا تھا۔ پہلا ہدف صہیونی یرغمالیوں کی رہائی اور دوسرا حماس کو مکمل تباہ کرنا تھا۔ غزہ پر حملے کے اہداف کے حصول میں ناکامی کا اعتراف کیا گیا۔ صہیونی فوج کے اس اعتراف کے بعد مقبوضہ علاقوں میں مقیم صہیونیوں میں مایوسی پھیل گئی اور صہیونی فوج اور حکومت کا امیج بری طرح متاثر ہوا۔
2۔ غزہ کے حملے کے ساتھ فلسطینی عوام کی بدترین نسل کشی کی گئی۔ چاروں طرف سے محاصرہ کرکے غزہ کے عوام کو پانی اور غذا سمیت زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم کیا گیا جس سے عالمی سطح پر صہیونی حکومت ایک خونخوار اور درندہ صفت حکومت کے طور پر معروف ہوگئی۔
ان وجوہات کی بناپر عالمی سطح پر صہیونی حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار ہونے لگی۔ امریکہ اور یورپی ممالک سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں صہیونی حکومت کے خلاف مسلسل مظاہرے ہونے لگے جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ عالمی صہیونزم کے حامی اسرائیل کو ایک جمہوری حکومت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہے تھے لیکن غزہ کی حالیہ جنگ میں ان کی کوششوں کی شدید ٹھیس پہنچا۔
3۔ جنگ غزہ کے دوران اسرائیلی فوج کو ہونے والے شدید نقصانات کے بعد صہیونی عوام کا اسرائیلی فوج پر سے اعتماد ختم ہوگیا ہے اور اسرائیلی فوج کے ناقابل شکست ہونے کا بے بنیاد نظریہ نابود ہوگیا ہے۔
4۔ گذشتہ گیارہ مہینوں کے دوران غزہ میں صہیونی فوج نے بے گناہ فلسطینیوں کو قتل کرنے کے علاوہ کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا جس سے واضح ہوگیا ہے کہ اسرائیلی فوج بڑی اور پیچیدہ جنگ لڑنے کی صلاحیت سے مکمل عاری ہے۔ اسی وجہ سے صہیونی حکام امریکہ کو جنگ میں کھینچنے اور مقاومتی تنظیموں کے سامنے لاکھڑا کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔ صہیونی حکومت نے طوفان الاقصی کے شروع میں ہی لبنان سے لے کر عراق تک مقاومتی تنظیموں کو جنگ سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی تاہم کامیاب نہ ہوسکی اور پورے خطے کی مقاومتی تنظیموں نے فلسطینی مقاومت کے شانوں سے شانے ملاکر تل ابیب کے دانت کھٹے کردئے۔
5۔ صہیونی حکومت نے گذشتہ 75 سالوں سے ہمیشہ خود کو دنیا کے سامنے مظلوم کے طور پر پیش کیا تھا۔ غزہ کی جنگ میں ظلم و ستم کی داستانیں سامنے آنے کے بعد صہیونی حکومت کے اصلی چہرے سے پردہ ہٹ گیا۔ آج بین الاقوامی عدالت نے اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کا مرتکب اور صہیونی حکومت کا جنگی مجرم قرار دیا ہے۔
6۔ جنگ غزہ کے نتائج اور آثار کی روشنی میں صہیونی حکومت کو درپیش خطرات کے بارے میں بحث شروع ہوگئی ہے۔ آج صہیونی اسرائیل کی توسیع کے بجائے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
7۔ غزہ میں فلسطینی نہتے شہریوں مخصوصا بے گناہ خواتین اور معصوم بچوں پر ظلم میں اسرائیل کی حمایت کے بعد امریکہ اپنے عوام اور بین الاقوامی برادری کے سامنے لاجواب ہوگیا ہے۔ اسی وجہ سے صہیونی حکومت کو بین الاقوامی ممالک کے ساتھ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے شدید تشویش لاحق ہوگئی ہے۔
8۔ صہیونی حکومت خود کو خطے کا اہم کھلاڑی اور علاقائی معاملات میں اہم کردار کے طور پر دیکھتی تھی۔ جنگ غزہ کے بعد ثابت ہوگیا کہ صہیونی حکومت اپنے عوام کے دفاع کی بھی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔
صہیونی عوام پر طوفان الاقصی کے اثرات
1۔ گذشتہ دس سے زائد مہینوں کے دوران مقبوضہ فلسطین کی شمالی اور جنوبی سرحدوں پر آباد صہیونی خوف و ہراس کے سایے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ حزب اللہ اور فلسطینی مقاومت کے حملوں کی وجہ سے سرحدی علاقوں میں صہیونیوں کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ دنیا کی برترین قوم کے بے بنیاد نظریے کے تحت مختلف ممالک سے ان علاقوں میں آکر آباد ہونے والے صہیونی اپنے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچ رہے ہیں۔ نتن یاہو اور صہیونی فوج کی کارکردگی کے پیش نظر ان صہیونیوں میں مایوسی اور ناامیدی مزید بڑھ رہی ہے۔
2۔ صہیونی نظریے کے ساتھ ہمدردی اور اس کے لئے اظہار حمایت کے ساتھ آنے والے صہیونی اپنے فیصلے کے بارے میں تردید کا شکار ہورہے ہیں۔ ماضی میں صہیونی نظریے کے ساتھ تعصب کی حد تک لگاو رکھتے تھے لیکن حالیہ سالوں میں تل ابیب حکام کے کرپشن اور خیانت پر مبنی داستانیں سامنے آنے کے بعد صہیونی عوام کے اندر بددلی پھیل گئی ہے۔
3۔ مقاومتی جوانوں کے ہاتھوں بڑی تعداد میں صہیونی فوجیوں اور سویلین کی ہلاکت کے بعد صہیونیوں کے ناقابل شکست ہونے کا نظریہ پاش پاش ہوگیا ہے۔
4۔ نتن یاہو کابینہ اور صہیونی فوج کو صہیونی عوام کی حفاظت میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے صہیونی عوام نتن یاہو اور صہیونی فوج پر اعتماد کرنے کے بجائے امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف دیکھ رہے ہیں اور ان ممالک سے امید لگارہے ہیں کہ ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے مقاومتی تنظیموں سے ان کو بچائیں گے۔
5۔ ماضی میں امریکی اور یورپی عوام صہونیت کے ساتھ گہری لگاو رکھتے تھے۔ جنگ غزہ کے بعد ان کی حمایت اور لگاو میں شدید کمی آئی ہے جس کی وجہ سے صہیونی عوام کے اندر احساس تنہائی بڑھ رہا ہے۔
6۔ گذشتہ گیارہ مہینوں کے دوران صہیونی عوام پر یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ صہیونی رہنماوں نے ان کو سبز باغ دکھا کر اپنے آبائی ممالک سے مقبوضہ فلسطین بلایا تھا۔ مقبوضہ علاقوں کے بارے میں پرامن اور خوشحال ہونے کے دعوے سراسر جھوٹ پر مبنی تھے۔
آپ کا تبصرہ