28 مارچ، 2024، 4:26 AM

رمضان المبارک کے سترہویں روز کی دعا اور مختصر شرح

رمضان المبارک کے سترہویں روز کی دعا اور مختصر شرح

اللہ تعالی ان خواہشات کو پورا کرتا ہے جو ہمیں تکامل اور ترقی کی طرف لے جائیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ رمضان المبارک کے سترہویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں: خدایا! اس دن اعمال صالح کی طرف میری ہدایت فرما اور اس میں میری حاجات اور تمنائیں پوری فرما اے وہ ذات جو کسی بیان اور سوال کی طرف محتاج نہیں اے دنیا والوں کے سینے میں موجود حقائق سے باخبر ہستی محمد اور ان کے پاک آل پر درود بھیج۔

اللهمّ اهْدِنی فیهِ لِصالِحِ الأعْمالِ واقْضِ لی فیهِ الحَوائِجَ والآمالِ یا من لا یَحْتاجُ الی التّفْسیر والسؤالِ یا عالِماً بما فی صُدورِ العالَمین صَلّ علی محمّدٍ وآلهِ الطّاهِرین

سترہویں دن کی دعا میں اللہ سے درج ذیل حاجات طلب کرتے ہیں:

1۔ اعمال صالح کی طرف ہدایت
2۔ حاجات اور آروزوں کی تکمیل
3۔ پیغمبر اور ان کے خاندان پر درود

اللهمّ اهْدِنی فیهِ لِصالِحِ الأعْمالِ

خدایا! اس دن اعمال صالح کی طرف میری ہدایت فرما

دعا کے اس جملے  میں خدا سے اعمال صالح کا سوال کیا گیا ہے لیکن اعمال صالح کی تشریح نہیں کی گئی ہے۔ جب نیک اعمال کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم خدا سے اپنے ہر عمل کو لائق بنانے کی دعا کرتے ہیں۔ انسان بہت سے اعمال کر تا ہے لیکن ان میں سے کچھ اعمال صالح ہیں۔

صالح اور شائستہ  عمل کیا ہے؟ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کی تین خصوصیات ہیں:

1۔ عمل ذاتی طور پر شائستہ ہونا چاہیے یعنی  عقل و ضمیر جس کی تصدیق کریں۔
2۔  اعمال کی بنیاد خدا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اہل بیت علیھم السلام کے حکم الٰہی پر ہونی چاہئے۔
3۔ اس کا سرچشمہ ایمان ہونا چاہئے چنانچہ قرآن میں عمل صالح سے پہلے ایمان کاذکر آیا ہے۔

وَاقْضِ لِی فِیهِ الْحَوائِجَ وَالآمالَ

اور اس میں میری حاجات اور تمنائیں پوری فرما

انسان کا پورا وجود فقر اور نیاز سے عبارت ہے۔ سورہ فاطر میں ارشاد ہوتا ہے: یا أَیُّهَا اَلنّاسُ أَنْتُمُ اَلْفُقَراءُ إِلَی اَللّهِ وَ اَللّهُ هُوَ اَلْغَنِیُّ اَلْحَمِیدُ اے لوگو ! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستائش ہے۔

اللہ تعالی نے اس فقر کو برطرف کرنے کا راستہ بھی بیان کیا ہے چنانچہ سورہ بقرہ ارشاد ہوتا ہے: وَ إِذا سَأَلَکَ عِبادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ اَلدّاعِ إِذا دَعانِ اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں قریب ہوں جب مجھے پکارے تو میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں۔

اسی طرح سورہ غافر میں اللہ فرماتا ہے: ادْعُونی‌ أَسْتَجِبْ لَکُمْ مجھ سے دعا کرو میں استجابت کرتا ہوں۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے خدا سے فرمایا: اے خدا میری دعاؤں کا قبول کرنا میرے ایمان میں اضافے کا باعث ہے۔

انسانی خواہشات کی دو قسمیں ہیں:

1۔ وہ خواہشات جو انسان کو وہم اور باطل خیالات کی صورت میں گھیر لیتی ہیں اور اسے راہ راست سے دور رکھتی ہیں۔ اللہ کے حضور دعا کرنے سے اس طرح کی خواہشات پوری نہیں ہوتی ہیں۔
2۔ وہ خواہشات جو انسان کو تکامل اور ترقی کی طرف لے جاتی ہیں۔ یہ خواہشات معنوی اور مادی دونوں ہوسکتی ہیں۔ یہ تمنائیں اللہ کی جانب سے ہوتی ہیں چنانچہ کہا جاتا ہے خواہشات میری امت کے لئے رحمت ہیں۔ اللہ تعالی اس قسم کی خواہشات کو قبول کرتا ہے۔

یَا مَنْ لا یَحْتاجُ إِلَی التَّفْسِیرِ وَالسُّؤالِ، یَا عالِماً بِما فِی صُدُورِ الْعالَمِینَ

اے وہ ذات جو کسی بیان اور سوال کی طرف محتاج نہیں اے دنیا والوں کے سینے میں موجود حقائق سے باخبر ہستی۔

سورہ ابراہیم میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے: رَبَّنا إِنَّکَ تَعْلَمُ ما نُخْفِی وَ ما نُعْلِنُ وَ ما یَخْفی عَلَی اَللّهِ مِنْ شَیْءٍ فِی اَلْأَرْضِ وَ لا فِی اَلسَّماءِ ہمارے رب ! جو کچھ ہم پوشیدہ رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں تواسے جانتا ہے، اللہ سے کوئی چیز نہ تو زمین میں چھپ سکتی ہے اور نہ آسمان میں۔

اسی طرح سورہ انبیاء میں اللہ کا فرمان ہے: وَ کُنّا بِکُلِّ شَیْءٍ عالِمِینَ اور ہم ہر چیز کا علم رکھتے ہیں۔ ایسی ذات بندوں کی طرف سے سوال کی محتاج نہیں ہے کیونکہ اس کو سب کچھ علم ہے جانتی ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔

ماہ رجب کی دعا میں پڑھتے ہیں: یا مَنْ یُعْطی مَنْ سَئَلَهُ یا مَنْ یُعْطی مَنْ لَمْ یَسْئَلْهُ اے وہ ذات جو طلب کرنے والے اور طلب نہ کرنے والے دونوں کو عطا کرتی ہے۔

صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الطَّاهِرِینَ محمد و ان کے پاک آل پر درود بھیجیں۔ پیغمبر اور ان کے آل پر درود بھیجنا ہر مومن کا وظیفہ ہے۔

سورہ احزاب میں ارشاد ہوتا ہے: إِنَّ اَللّهَ وَ مَلائِکَتَهُ یُصَلُّونَ عَلَی اَلنَّبِیِّ یا أَیُّهَا اَلَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِیماً بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلٰوات بھیجتے ہیں تو اے صاحبانِ ایمان تم بھی ان پر صلٰوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: نامکمل درود نہ بھیجیں اور صلوات میں میرے اہل بیت کو مجھ سے جدا نہ کریں پس کہیں:  اَلّلهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ خدایا! محمد اور آل محمد پر درود بھیج۔

News ID 1922891

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha