مہر خبررساں ایجنسی نے المسیرہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ یمن کی قومی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ "محمد عبدالسلام" نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شائع کرتے ہوئے تاکید کی کہ فرانس کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ایک استعماری طاقت تھا اور اب اس کا دور ختم ہوچکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نائیجر اور دیگر افریقی ممالک کے قومی وسائل کو کئی دہائیوں تک لوٹنے والے فرانس استعمار کا دور ختم ہو گیا ہے۔
واضح رہے کہ ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ قبل نائیجر کی فوج نے اس ملک میں بغاوت کر کے نائجر کے صدر کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا اور ملک پر حکمرانی کے لیے ایک فوجی کونسل تشکیل دی تھی۔
فرانسیسی حکام نے بھی نائیجر کے معزول صدر کی حمایت کا اعلان کیا اور بغاوت کے خاتمے اور صدر کی اقتدار میں واپسی کا مطالبہ کیا۔
گزشتہ روز نائیجر کے دارالحکومت نیامی میں فرانسیسی فوجی اڈے کے سامنے دسیوں ہزار مظاہرین جمع ہوئے اور فوجی بغاوت کے بعد فرانسیسی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کیا۔ فوجی بغاوت کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے لیکن پیرس(سابق فرانسیسی استعمار) نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
نائیجر میں 26 جولائی 2020 کی بغاوت، مغربی اور وسطی افریقہ میں ہونے والی آٹھ بغاوتوں میں سے ایک ہے، جس نے فرانس کے علاقائی اثر و رسوخ کو مزید کمزور کیا، جس کا مغربی افریقہ میں حالیہ برسوں میں اس کی سابقہ کالونیوں پر اثر و رسوخ کم ہو گیا ہے۔
ہمسایہ ممالک مالی اور برکینا فاسو میں پچھلی بغاوتوں کے بعد فرانسیسی فوجیوں کو ان ممالک سے نکال دیا گیا ہے اور اب وہ نائیجر میں بھی نہیں رہ سکتے۔
فوجی قبضے کے بعد نائیجر میں فرانس مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے جو خاص طور پر گزشتہ ہفتوں سے زیادہ شدت اختیار کر گئے ہیں، جب فرانس نے اپنے سفیر سلوین یتے کو ملک بدر کرنے کے سرکاری فیصلے کو نظر انداز کر دیا۔
ہفتے کے روز، فرانسیسی فوجی اڈے کے باہر، مظاہرین نے فرانسیسی پرچم سے ڈھکے تابوت اٹھا رکھے تھے اور بعض نے فرانس کو نائیجر چھوڑنے کے مطالبے کے بینر اٹھا رکھے تھے۔
رائٹرز کے نامہ نگاروں نے کہا کہ یہ بغاوت کے بعد سب سے بڑی فرانس مخالف ریلی تھی، جس میں فوجی حکومت کی حمایت کا اظہار کیا گیا اور فرانس کے خلاف بھرپور اشتعال دیکھا گیا۔
آپ کا تبصرہ