مہر خبررساں ایجنسی نے یروشلم پوسٹ کے حوالے سے نقل کیاہےکہ ایک اعلیٰ امریکی فوجی اہلکار کا کہنا ہے کہ امریکہ، صہیونی حکومت اور واشنگٹن کے اتحادی ایران سے ڈرون حملوں کی پیش گوئی کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق امریکہ کے ٹرانسپورٹیشن اسٹاف کی کمانڈر جنرل جیکولین وان اوسٹ نے بدھ کے روز ایک ورچوئل اجلاس میں کہا کہ امریکی ٹاسک فورس 99 ایک میش نیٹ ورک بنانے کے لیے ڈرونز کا استعمال کر رہی ہے اور اس کے پاس ایرانی ڈرون کا مقابلہ کرنے کے لیے اور اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ جوابی اقدام کا طریقہ کار کیا ہوگا ایک مربوط فضائی اور میزائل دفاع ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل دی نیشنل انٹرسٹ میگزین نے اپنے ایک مضمون میں مغرب بالخصوص امریکہ کی پابندیوں کے باوجود مختلف قسم کے بغیر پائلٹ کے ڈرونز کی تیاری کے شعبے میں ایران کی صلاحیتوں سے پردہ اٹھایا تھا۔ مذکورہ مضمون مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر اور یونیورسٹی آف فلوریڈا میں سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ’ایرک لوب‘ کا تحریر کردہ تھا جس کا عنوان ’ایرانی ڈرونز کی خلل اندازی میں مشکلات‘ ﴿The Difficulty of Disrupting Iranian Drones﴾ تھا۔
مضمون میں کہا گیا کہ اقتصادی پابندیوں اور برآمدی کنٹرول کے ذریعے ایران کے ڈرون پروگرام میں خلل ڈالنے کی مشکل کو مدنظر رکھتے ہوئے، بہتر ہے کہ امریکہ نئی حکمت عملی اختیار کرے۔
مذکورہ مضمون میں قدس ایوی ایشن اینڈ ایرو اسپیس انڈسٹریز آرگنائزیشن (IAIO) اور ایران ایئر کرافٹ مینوفیکچرنگ انڈسٹریز کارپوریشن (HESA) جیسے ایرانی ڈرون بنانے والی کمپنیوں پر دہائیوں پر محیط پابندیوں کا حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ برسوں سے امریکہ نے ایران کے ملٹری-صنعتی کمپلیکس اور مینوفیکچرنگ بیس کے خلاف پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جن میں IAIO، HESA، فجر ایوی ایشن انڈسٹریز (FACI)، ایران ہیلی کاپٹر سپورٹ اینڈ رینویشن انڈسٹریز (PAHNA) اور ایران ایئر کرافٹ مینوفیکچرنگ انڈسٹریز (IACI)جیسے ادارے شامل ہیں، جو محض چند ایک نام ہیں۔ اس کے باوجود ایران کے ایرو اسپیس سیکٹر اور ڈرون انڈسٹری نے اپنی توسیع اور ترقی کو مسلسل جاری رکھا ہے۔
دی نیشنل انٹرسٹ نے اپنی مضمون میں مزید کہا کہ مغربی پابندیاں ایران کو فوجی ڈرون مارکیٹ میں نمایاں کھلاڑی بننے اور مشرق وسطیٰ کے اندر اور باہر پارٹنرز اور پراکسیز کے ساتھ ڈرون ٹیکنالوجی کا اشتراک کرنے سے روکنے میں ناکام رہی ہیں۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ ایران نے 1980 کی دہائی کے وسط میں ایران عراق جنگ کے بعد سے ملٹری ڈرون تیار اور استعمال کیے ہیں۔ 33 سے زیادہ ماڈلز کے ساتھ ایران کا انتہائی ترقی یافتہ، جدید ترین ملٹری ڈرون کمپلیکس اس کی سیکورٹی حکمت عملی اور اور طاقت کے ڈھانچے کے چار ستونوں میں سے ایک پر مشتمل ہے جو اس کی میزائل ٹیکنالوجی، پراکسی فورسز، اور سائبر وارفیئر کی تکمیل کرتا ہے۔
امریکی آرٹیکل میں مزید کہا گیا کہ ڈرونز نے تیزی سے ایران کو غیر متناسب فائدہ پیش کیا ہے۔ ایرانی ڈرون اپنے جیسے مغربی ماڈلز کے مقابلے میں سستے ہیں اور میدان جنگ میں، خواہ وہ ملکی اور علاقائی ہو یا خلیج فارس میں اور اس کے ارد گرد امریکی اور اتحادیوں کے اثاثوں کے خلاف ہوں کارآمد ثابت ہوئے ہیں۔
ایرک لوب مزید لکھتا ہے کہ ڈرونز نے ایران کو پاور پروجیکٹ کرنے اور منافع کمانے، ٹیکنالوجی کی نمائش اور اپنی ساکھ کو بڑھانے، مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر اتحاد کو مضبوط کرنے کے قابل بنایا ہے۔ [بڑھتی ہوئی پابندیاں اور مسلسل ایرانی عسکری ترقی] نہ صرف ایران کی خودمختاری اور خود کفالتی کے انقلابی بیانیے کو پیچیدہ بناتے ہیں بلکہ پابندیوں کو بائی پاس کرنے کی اس کی غیر معمولی صلاحیت کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ