مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ قم کے تاریخی مدرسہ فیضیہ میں ہونے والی پاکستانی طلاب کی ایک تقریب سے عالمی مجمع تقریب مذاہب اسلامی کے سیکریٹری جنرل حجة الاسلام و المسلمین ڈاکٹر شہریاری نے خطاب کیا۔
ڈاکٹر شہریاری نے کہا کہ اسلامی انقلاب اور شہید سلیمانی کا مکتب در حقیقت رسول اللہ ﴿ص﴾ کے مکتب کا تسلسل ہے۔ انہوں نے رسول اللہ ﴿ص﴾ کے مکتب کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس الہی مکتب کے حوالے سے قابل غور نکتہ رسول اللہ ﴿ص﴾ کی معیت ہے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ والذین معہ اشداء علی الکفار و رحماء بینہم، یہاں "معہ" کی تعبیر اور معیت پر غور کرنے کی ضروت ہے تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ رسول اللہ ﴿ص﴾ کے ساتھ کون ہے؟ اور رسول کی معیت کے کیا معنی ہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کے زمانے میں آپ کے اصحاب ایک دوسرے سے اختلاف رائے اور سیلقے کا اختلاف رکھتے تھے، تاہم ایک محور کے گرد جمع تھے اور وہ تھا رسول اللہ ﴿ص﴾ کی معیت، لیکن آنحضرت ﴿ص﴾ کی وفات کے بعد کچھ مسائل پیدا ہوئے جس کی وجہ سے امت اسلامیہ میں جدائی اور تفرقہ ایجاد ہوگیا اور افسوس کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان کچھ جنگیں بھی ہوئیں۔
ڈاکٹر شہریاری نے وحدت اور اتحاد کے حقیقی معنی کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ وحدت سے ہماری مراد قطعاً یہ نہیں ہے کہ اپنے عقائد سے ہاتھ کھینچ لیا جائے۔
انہوں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ رسول اللہ ﴿ص﴾ کی معیت کا مصداق کس طرح بن سکتے ہیں، کہا کہ امام صادق ﴿ع﴾ اپنے شاگردوں کو سفارش فرماتے تھے کہ اہل سنت کی نماز میں شرکت کریں، ان کے جنازوں میں شرکت کریں، ان کے بیماروں کی عیادت کریں، ان کی امانتوں کی حفاظت کریں اور واپس لوٹائیں۔ یہی معصومین ﴿ع﴾ کی سیرت ہے۔ لہذا رسول اللہ کی معیت میں ہونے کا معنی یہی ہے کہ اپنے تمام تر فکری اختلافات کے باوجود باہمی میل جول اور اخوت کا رشتہ نہیں ٹوٹنا چاہیے۔ مسلمان اسی طرح رسول کی معیت کی چادر تلے جمع ہوسکتے ہیں۔
مجمع تقریب مذاہب اسلامی کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ امام خمینی ﴿رہ﴾ خطے میں اتحاد و حدت کے سب سے پہلے داعی اور علمبردار تھے اور اس وقت اسلامی معاشروں میں رہبر معظم انقلاب وحدت کے علمبردار ہیں۔ یقیناً دشمن بدستور اسلامی معاشروں میں تفرقہ پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ شیعہ سنی تفرقہ پھیلانے کے علاوہ شیعوں میں خود دوسرے شیعوں کے ساتھ اور سنیوں کے خود دوسرے سنیوں کے ساتھ نفرت اور تفرقے کی آگ بھی بھڑکا رہا ہے۔
حجة الاسلام شہریاری نے تکفیر کی ادبیات اور طرز فکر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تکفیر کی ادبیات اور یہ طرز فکر اسلامی معاشرے سے ختم ہونا چاہیے اور جو کوئی بھی تکفیر کی ادبیات استعمال کرتا ہے اسے دوسرے جہاں میں رسول اللہ ﴿ص﴾ کو جواب دینا ہوگا۔ کیونکہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ والذین معہ اشداء علی الکفار و رحماء بینہم، معہ یعنی رسول اللہ کے ساتھ ہوں اور یہ معیت تمام مسلمانوں کو شامل ہوتی ہے جب تک وہ اسلام ناب محمدی کے پرچم تلے قائم رہیں۔ اگر ہم مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور رسول اللہ ﴿ص﴾ پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں کسی دوسرے مسلمان کی توہین اور تنازع پیدا نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ اسلام یہاں تک کہ غیر حربی کفار کے ساتھ بھی مصالحت اور امن پسندی کی تاکید کرتا ہے یعنی دیگر تمام ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ بھی پرامن بقائے باہمی کے اصول پر زندگی گزارنے کا حکم دیتا ہے، یہ سیرت النبی ﴿ص﴾ کی ادبیات ہے اور صرف حربی کفار یعنی جو مسلمانوں کے قتل کے درپے ہیں اور مسلمانوں سے جنگ کرتے ہیں، اسلام کے دشمن شمار ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر شہریاری نے امام خمینی کے عظیم مقاصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی ﴿رہ﴾ نے اسلامی انقلاب کی بنیاد وحدت کے اصول پر رکھی، ایرانی معاشرے میں بھی وحدت اور امت اسلامیہ کے درمیان بھی وحدت بلکہ اس سے بھی بالا تر دنیا کے مستضعفین کے درمیان وحدت۔ اسلامی انقلاب کا سب سے اصلی اور بنیادی رکن مستضعفین کی وحدت ہے یعنی بلا امتیاز نسل، رنگ، مذہب اور علاقہ دنیا بھر کے پسے ہوئے اور مظلوم لوگوں کا اتحاد اور وحدت اس انقلاب کا اصلی رکن ہے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے شہید سلیمانی کے مکتب کو امام خمینی ﴿رہ﴾ کے مکتب کا تسلسل قرار دیا اور کہا کہ شہید سلیمانی کے مکتب کی ایک خصوصیت تھی اور وہ قرآن مجید پر ایمان ہے۔ شہید قاسم سلیمانی نے دنیا والوں پر ثابت کیا کہ استکبار کے سامنے کھڑا ہوا جاسکتا ہے۔ امریکہ،برطانیہ اور اسرائیل دنیا والوں کے لئے دیو ﴿ناقابل شکست طاقت﴾ کی حیثیت رکھتے تھے لیکن شہید سلیمانی نے ان کا برہم پارہ پارہ کردیا۔ ہم اگر آج شہید سلیمانی کی عقلیت کو نوجوانوں کے لیے نمونہ اور اسوہ کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو مقاومت کے تابناک مستقل کی امید باندھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر شہریاری نے شہید سلیمانی کو مذہب سے ماوراء شخصیت قرار دیا اور کہا کہ سالوں قبل جب الجزیرہ ٹیلی ویژن چینل کی بنیاد رکھی گئی تو یہ اسلامی جمہوریہ ایران، انقلاب اور شیعی فکر سے مقابلہ کرنے کے لئے اصلی ابلاغیاتی مراکز میں سے ایک تھا۔ جس کا مقصد قطر سے شیعہ فوبیا اور انقلاب فوبیا کی تشہیر تھا اور اس کو بنائے جانے کا اصلی ہدف بھی یہی تھا۔ لیکن قطر جب سعودی عرب اور بحرین کے محاصرے میں تھا تو اس وقت شہید سلیمانی نے فراست سے کام لیتے ہوئے قطر کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھایا۔ آج خطے میں قطر اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کا ایک حامی بن چکا ہے۔ شہید سلیمانی مذہب سے ماوراء سوچتے تھے۔ وہ وہی شخصیت ہیں جنہوں نے عراق کے سنی کردوں کو محاصرے سے نکالا اور داعش کی قید میں پھنسے ہوئے ایزدیوں کو ان سے نجات دلائی۔
ڈاکٹر شہریاری نے آخر میں کہا کہ وحدت انگیز اقدامات کی صورت میں جو عقلیت پسندی کی تحریک پاکستان میں شروع ہوئی ہے ان شاء اللہ وہ جاری رہے تاکہ ہم خطے میں امت واحدہ کو حقیقی روپ دے سکیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ وحدت کے لئے قدم بڑھائیں اور اسے اپنا نصب العین بنالیں تو آپ رسول اللہ ﴿ص﴾ کے ساتھ اور ان کی معیت میں ہوں گے اور پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ آپ کی شفاعت کریں گے۔ تاہم اگر آپ نے تفرقہ ڈالا، امت کے بھائی چارے میں دراڑیں ڈالیں اور نفرت و دشمنی کا بیج بویا تو پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ آپ کی شفاعت نہیں کریں گے۔
آپ کا تبصرہ