مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے کہا ہے کہ داخلی اور خارجی چیلنجز سے تعلق رکھنے والے اجتماعی امور کے حل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے زمانہ کے ولی کو رشد و ہدایت کا منبع قرار دے کر ان سے رجوع کیا جائے۔ اس طرح ہم کسی غلطی کے امکان سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ عالمی طاقتیں اور ادارے مختلف طریقوں سے معاشرہ کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں۔ تعلیم، معیشت، ثقافت، حکومتی ڈھانچہ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ، ان سب کے نظام میں استعماری سوچ موجود ہے لیکن قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ ہمارے حکمران ”سب ٹھیک ہے“ کہ کر عوام کو بیوقوف بناتے ہیں۔ من حیثِ شیعہ، انقلابی و ولائی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہمارا پہلا ہدف مکتب اور وطن کی حفاظت ہونا چاہیے اور اگر ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو دین، عقیدہ اور مکتبی نظریات کو ترجیح دینی چاہیے۔ اگر ان کو نمو اور ترقی ملتی ہے تو ان پر ہزاروں جانیں قربان۔ وطن پرستوں اور دین داروں میں یہی فرق ہوتا ہے کہ دین دار، وطن کو دین کے لئے چاہتے ہیں۔ اگر وطن کی اہمیت دین کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی تو امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام مدینہ میں ہی قیام فرماتے، انہیں کوفہ نہیں جانا چاہیے تھا۔ اسی طرح حسین ابن علی علیہ السلام نے سن ساٹھ ہجری میں دین کی حفاظت کے لئے مدینہ سے کوچ کیا۔ اگر مومن کے قلب میں وطن کی محبت اور عقیدہ کے درمیان ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو تو اسے عقیدہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔
علامہ امین شہیدی نے کہا کہ ہمارے ہاں فکری اور نظریاتی تربیت کا فقدان ہے لہذا ہمیں اس طرف زیادہ متوجہ رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے نوجوان مضبوط ہوں۔ نوجوانوں کو تنظیمی بنانے سےزیادہ تربیت یافتہ بنانے کی ضرورت ہے، یعنی تربیت کے نتیجہ میں ایسے نوجوان سامنے آئیں جو حقیقی معنوں میں موحد بھی ہوں اور علیؑ کے شیعہ بھی۔ یاد رکھئے! ہمیں اپنے ارد گرد پیش آنے والے واقعات اور حوادث کے حوالہ سے اتنا ہوشیار اور دور بین ہونا چاہیے کہ ہمارے نوجوان وقت کے سامری کے جال میں پھنسنے نہ پائیں اور حریت، فکر، استقلال اور دین داری قائم رہنے کے ساتھ ان میں خیر و شر کے درمیان تمیز کی قوت بھی موجود رہے۔
آپ کا تبصرہ