مہر خبر رساں ایجنسی، مہر میگزین؛ مسلمانانِ عالم کے مابین عاشورا کے دن منائے جانی والی پرجوش عزاداری، طویریج ہے جو کربلائے معلی عراق میں منائی جاتی ہے۔ طویریج کی عزاداری میں عراقیوں کی اتنی زیادہ تعداد شرکت کرتی ہے کہ حرم مقدس امام حسین اور حضرت عباس﴿ع﴾ کی انتظامیہ عشرہ محرم کے نزدیک ہوتے ہی دوںوں حرم مقدسہ کے صحنوں میں خصوصی انتظامات شروع کردیتی ہے۔ مہر میگزین نے اس رپوٹ میں اس حوالے سے کچھ تاریخی حقائق اور اس ضمن میں پیش کئے جانے والے بیانات کو مرتب کیا ہے۔
حرم امام حسین ﴿ع﴾ کی رپورٹ
کچھ وقت پہلے حرم امام حسین ﴿ع﴾ نے روز عاشور کی اس عزاداری کے متعلق ایک رپورٹ منتشر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ عزاداران حسینی اس جلوس کے ذریعے امام حسین ﴿ع﴾ کی ٦١ ہجری کے روز عاشور ظہر کے وقت «هل من ناصر» کی ندا کا جواب دیتے ہوئے «لبیک یا حسین (ع)» کی صدائیں بلند کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس ماتمی جلوس اور دستہ عزاداری کو بھی بہت سے دوسرے شعائر حسینی کی طرح مختلف زمانوں میں عراق میں برسر اقتدار حکومتوں کی جانب سے پابندیوں اور محدودیتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم برسر اقتدار ظالم حکومتوں کی کوششوں کے باوجود یہ عزاداری ابھی تک زندہ بچی ہوئی ہے۔
صوبہ کربلا میں عزاداری اور شعائر حسینی کی تاریخ کے محقق رشید زمیزم کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ عزاداری یہ اپنی موجودہ شکل میں ١۸۵۵ سے جبکہ ایک دوسرے قول کے مطابق ١۸۷۲ سے ﴿تقریباً ١۵۰ سال پہلے﴾ شروع ہوئی ہے۔
ان کے بقول اس عزاداری کے بانی میرزا صالح القزوینی ہیں جو صوبہ کربلا کے اکابرین میں سے ایک اور الہندیہ شہر کے نواحی قصبے طویریج کے رہنے والے تھے۔ یہ قصبہ کربلا شہر کے مشرق میں ۲۵ کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔
میرزا صالح القزوینی ہر سال محرم الحرام کے پہلے عشرے کے دوران اپنے گھر میں مجالس و عزاداری کا اہتمام کرتے تھے۔ ایک سال عاشور کے روز وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے جبکہ عزاداروں کی ایک تعداد ان کے ساتھ پیدل چل رہی تھی، اسی عزاداری کی حالت میں کربلا کی جانب نکل گئے۔
جب کربلا کے لوگوں نے طویریج کے عزاداروں کو اس پرجوش انداز میں عزاداری کرتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے اور اس سال سے اب تک یہ عزاداری جاری ہے۔
زمیزم کا مزید کہنا ہے کہ میرزا صالح القزوینی کربلا شہر کے داخلی دروازے باب الطویریج پر عزاداروں کے جم غفیر کے ساتھ پہنچے اور ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد رکضة طویریج ﴿طویریج کے پیدل بھاگتے ہوئے جلوس﴾ کو دوبارہ سے حرم امام حسین ﴿ع﴾ اور حضرت عباس ﴿ع﴾ کی طرف شروع کردیا۔
صدام کا استبدادی زمانہ
تفصیلات کے مطابق صدام کی استبدادی حکومت ان حکومتوں میں سے ایک تھی جو اس عزاداری اور ماتمی دستے کی شدید مخالف تھیں اور دس محرم کے دن کربلا کے مختلف حصوں اور حرم مطہر کے قرب و جوار میں اپنے اہلکار اور جاسوس تعینات کردیتی تھی تا کہ کوئی عزاداری کا یہ جلوس برپا کرنے والوں کی شناخت کر سکے اور پھر انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دے۔
اگرچہ عزاداری امام حسین علیہ السلام برپا کرنے کے جرم میں کثیر تعداد میں عراقی جوان اور عوام صدامی حکومت کی جیلوں میں گئے اور اس جیسی مجالس و جلوس عزا کی وجہ سے اپنی جان گنوا بیٹھے لیکن بعثی حکومت کے سرنگوں ہوتے ہی یہ سلسلہ پہلے سے زیادہ عظمت و شوکت کے ساتھ دوبارہ شروع ہوگیا۔
بہت سے عراقی اور عرب نوحہ خوانوں نے رکضة طویریج ﴿طویریج کے پیدل بھاگتے ہوئے جلوس﴾ کے متعلق کئی نوحے پیش کئے ہیں اور بلاتردید ان میں سے ایک مشہور ترین نوحہ معروف عراقی نوحہ خواں ملاٴ باسم کربلائی کا ہے جو اپنے نوحے کے ایک فقرے میں علامہ بحر العلوم سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ امام زمانہ ﴿عج﴾ اس جلوس میں عزاداروں کے دوش بدوش دوڑتے ہیں اور لیبک یا حسین کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔
ہادی انصاری نے لکھا ہے کہ طویریج کا جلوس اور ماتمی دستہ سب سے برتر، سب سے طویل اور ولولہ انگیز ترین جلوس حسینی شمار ہوتا ہے۔ یہ جلوس دنیا میں عاشور کے دن عزاداری حسینی کی سب سے بڑی تقریب شمار ہوتا ہے جو ہر سال عاشور کے دن ظہرین کی نماز کے بعد کربلائے معلی کے مشرق میں واقع قنطرة السلام کے علاقے اور طویریج شہر سے کربلا کی جانب والی سمت سے شروع ہوتا ہے۔
عاشور کے دن منعقد ہونے والا اس جلوس میں عزاداروں کا عظیم مجمع امام حسین ﴿ع﴾ کی ندائے " ألا هل من ناصر ینصرنا.. ألا هل من ذابٍّ فیذبُّ عنا".. کا جواب دیتے ہوئے کربلا کی جانب بڑھتے ہیں اور "لبیک یا حسین« اور »یالثارات الحسین" کی صدائیں بلند کرتے ہیں۔ طویریج کی عزاداری روز عاشور کی صبح کربلا سے ۲۰ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود الہندیہ نامی شہر کے نواحی قصبے طویریج سے کربلا کی طرف بڑھنے کے ساتھ شروع ہوتی ہے اور ظہر سے پہلے کربلا شہر سے ۲ کلو میٹر پر واقع قنطرة السلام نامی رک جاتی ہے اور ظہرین کے فریضے کی ادائیگی کے بعد یہ دستہ عزا کربلائے معلی کی جانب اپنی حرکت جاری رکھتا ہے۔
کئی لاکھ کے مجمع پر مشتمل یہ جلوس اور دستہٴ عزا طویریج کے باشندے نکالتے تاہم راستے میں کربلا کے لوگوں اور زائرین و مجاورین کی کثیر تعداد بھی اس میں شامل ہوجاتی ہے اور ماتم کناں بھاگتے ہوئے شہر میں داخل ہوتے ہیں اور اسی حالت میں حرم امام حسین ﴿ع﴾، حرم حضرت عباس ﴿ع﴾ اور خیمہ گاہ حسینی کی زیارت کرتے ہیں۔ اس دوران عزادار اہل بیت علیہم السلام سے اپنی عقیدت اور وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے» أبد والله ما ننسی حسینا « اور » وا حسین کی فریاد بلند کرتے ہیں۔
اس عزاداری میں ماتمی دستہ ننگے سروں اور ننگے پاوں حرم امام حسین ﴿ع﴾ کی جانب ماتم کناں ھرولہ کی حالت میں ﴿دوڑتے ہوئے﴾ بڑھتے ہیں اور مختصر سی زیارت کے بعد حرم قمر بنی ہاشم حضرت عباس ﴿ع﴾ کی طرف دوڑتے ہیں اور وہاں زیارت و اظہار عقیدت کے بعد خیمہ گاہ کی طرف حرکت کرتے ہیں۔ عزاداروں کا یہ عظیم مجمع حرم امام حسین ﴿ع﴾ کے راستے میں «لبیک یا حسین»، «لبیک یا داعی الله» اور «واحسین واحسین« جیسے نعرے لگاتے ہیں اور پھر حرم حضرت عباس﴿ع﴾ کی جانب بڑھتے ہوئے «واویل علی العباس«، «یا عباس جیب المای لسکینه« اور «الیوم الیوم نعزّی فاطمه« کی ندائیں بلند کرتے ہیں۔
اس عزاداری کے تاریخی اسباب ٦١ ہجری سے ملتے ہیں کہ جب طویریج گاوں کے لوگوں نے واقعہ کربلا کی خبر سنی تو یہ لوگ امام حسین ﴿ع﴾ کی نصرت کے لئے دوڑتے ہوئے کربلا کی جانب بڑھ گئے، تاہم وقت پر کربلا نہ پہنچ سکے۔ اس کے بعد اس گاوں کے باشندوں نے ہر سال اس عمل کو دھرانا شروع کردیا اور ہر سال شہدائے کربلا کے سوگ میں ہندیہ سے کربلا کے درمیان ١۰ کلو میٹر کے راستے کو ماتم کناں دوڑتے ہوئے طے کرتے ہیں۔
اس جلوس اور ماتمی دستے کی شہرت کی وجہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ مرحوم علامہ بحر العلوم متوفی ١۲١۲ ہجری عاشور کے دن اپنے کچھ شاگردوں کے ساتھ طویریج کے ماتمی دستے کا استقبال کرنے نکلے۔ عزاداروں کے پہنچنے پر ناگہاں شاگردوں نے دیکھا کہ علامہ سید بحر العلوم نے اپنی اس عظمت، وقار اور بلند علمی مقام کے باوجود اپنے عمامہ، عبا اور عصا کو ایک طرف پھینکا اور عزاداروں میں شامل ہوگئے اور اپنا سر اور سینہ پیٹنے لگے۔ بعض شاگردوں نے علامہ سید بحرالعلوم کی حفاظت کے لئے آپ کو پکڑ لیا کہ کہیں مجمع کے پاوں تلے نہ گر جائیں۔
جلوس کے اختتام کے بعد اس عظیم ہستی سے پوچھا گیا: کیا ہوا تھا کہ آپ بھی طویریج کے دستے میں شامل ہوگئے اور اس انداز میں سر و سینہ پیٹتے ہوئے ماتم کرنے لگے؟
علامہ بحر العلوم نے جواب دیا: میں کیوں نہ شامل ہوں در حالی کہ میں نے امام زمانہ ﴿عج﴾ کو مشاہدہ کیا کہ لوگوں کے ساتھ ہرولہ کی حالت میں تھے ﴿ماتم کناں دوڑ رہے تھے﴾۔
انہوں نے وضاحت دی: جب میں ماتمی دستے تک پہنچا تو دیکھا کہ حضت بقیة اللہ ﴿عج﴾ برہنہ سر اور پاوں ماتمیوں کے درمیان موجود ہیں اور اپنا سر اور سینہ پیٹ رہے ہیں اور گریہ کر رہے ہیں! میں برداشت نہ کرسکا اور آپ ﴿عج﴾ کے حضور پہنچ کر سینہ زنی اور عزاداری میں مشغول ہوگیا۔
اس واقعے کے بعد طویریج کے دستے میں شامل ہونے کا رواج عام ہوکر بڑھ گیا اور اب یہ عزاداری ہندیہ اور طویریج کے لوگوں سے مخصوص نہیں رہی بلکہ عراق کے دوسرے شیعہ بھی اس قصبے میں جاتے ہیں اور عاشورا کے روز ظہر کی نماز کے بعد وہاں سے کربلا تک ماتم کناں دوڑتے ہوئے آتے ہیں۔
دسیوں لاکھ افراد پر مشتمل یہ دستہ عزا عاشورا کا سب سے بڑا دستہ شمار ہوتا ہے اور علامہ سید مہدی بحر العلوم کے واقعے اور ان کے اس دستہ عزا میں شامل ہونے کی وجہ سے علما، مراجع اور عزادارانِ امام حسین ﴿ع﴾ کی کوشش ہوتی ہے کہ اس دستہ میں شریک ہوں۔ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ کچھ دہائیوں میں دنیا کے بہت سے دوسرے ماتمی دستوں نے اس دستہ عزا کے انداز کو اپنایا ہے۔
عراق میں یہ رسم ہے کہ علما عاشور کے دن عبا کے بغیر ایک بوسیدہ سی قبا پہنے ہوئے اور برہنہ پاوں اس حال میں کہ سر پر ایک معمولی سی دستار رکھ ہوتی ہے کہ جس کا ایک سرا اپنی گردن پر کے اطراف میں تحت الحنک کے طور رکھتے ہیں، سڑکوں میں نکلتے ہیں اور عزاداری کرتے ہوئے آخر میں طویریج کے دستے میں شامل ہوجاتے ہیں۔ پھر ہرولہ کرتے ہوتے اور ماتم و کرتے ہوئے مذکورہ شعار اور ندائیں دیتے ہوئے حرمین شریفین میں داخل ہوتے ہیں۔ اس عظیم اور وسیع و عریض جلوس اور دستہ عزا میں شور و بین کے رقت آمیز مناظر ہر آنکھ کو اشکبار کردیتے ہیں۔ ماتمی دستہ کی بھیڑ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کربلا کی سڑکوں اور بین الحرمین سے گزرنے میں اسے تین گھنٹوں سے زیادہ کا وقت لگ جاتا ہے۔
فارس نیوز ایجنسی کی جانب سے جاری کی گئی اس جلوس کی گزشتہ سال کی ویڈیو نیچے دیکھی جاسکتی ہے۔
السلام علی الحسین (ع)
وعلی علی بن الحسین (ع)
وعلی أولاد الحسین (ع)
وعلی أصحاب الحسین (ع)
ہمیں سوشل میڈیا پر جوائن کریں
آپ کا تبصرہ