مہر خبررساں ایجنسی نے ایکسپریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو آفتاب سلطان نے کہا ہے کہ فاٹا میں ہتھیار ڈالنے والے دہشت گردوں کو تربیت دے کر انہیں سکیورٹی فورسز میں شامل کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان نےکہا کہ 2013 میں دہشت گردی کے 208 ، 2014 میں 149 جب کہ 2015 میں 141 واقعات ہوئے۔ آئی بی کو تعلیمی اداروں پر حملوں کی اطلاعات تھیں لیکن باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی کوئی اطلاع نہیں تھی، گزشتہ 6 ماہ کے دوران آئی بی نے دہشت گردی کے 11 واقعات کی پیشگی اطلاع دی اور 581اہم دہشت گرد گرفتار کرائے جب کہ 84 دہشت گرد گرفتاری کی کوشش میں مارے گئے، اس کے علاوہ اندرون سندھ سے 93 بڑے ڈکیت پکڑے گئے ہیں۔ کراچی آپریشن شروع ہونے کے بعد 1121جرائم پیشہ افراد کو گرفتارکیا گیا،95 مارے گئے جب کہ جرائم میں 300 فیصد کمی آئی ہے۔
آفتاب سلطان نے بتایا کہ سپاہ صحابہ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی کے آپس میں روابط ہیں، کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد غیر ملکی نہیں بلکہ مقامی ہیں، آپریشن ضرب عضب میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی کمر ٹوٹ گئی ہے،عمر خلیفہ گروپ کے دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے، آئی بی ہی نے بشیر بلور،چودہری اسلم، ڈاکٹر سومرو، مقبول باقر،مینہ بازار دہشتگردی میں ملوث دہشت گرد گرفتارکرائے،واہگہ بارڈر پر دہشت گردی میں ملوث 9 میں سے 6 ملزمان کو گرفتارکر لیا گیا ہے جب کہ 3 افغانستان بھاگ گئے ہیں۔ داعش اور دیگر تنظیمیں سوشل میڈیا کو استعمال کررہی ہیں، آئی بی نے پاکستان میں داعش کا نیٹ ورک پکڑ لیا ہے۔ آرمی پبلک اسکول کی تحقیقات پاک فوج اور پولیس کررہی ہے۔
ڈی جی آئی بی کا کہنا تھا کہ جنرل ضیاء الحق سے آگے 2نسلوں کے ذہن تبدیل کیے گئے انھیں وہابی بنایا گیا ، ذہن تبدیل کرنے میں وقت تو لگے گا، وہابی اور دہشت گردانہ ذہنیت کو بدلنے میں 8 سے10سال لگیں گے۔ آئندہ سالوں میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوں گے لیکن ہمیں گھبرانے کے بجائے آگے بڑھنا ہے۔ کالعدم تنظیموں کی مالی امداد روکنے کے لیے پنجاب میں توجہ دی گئی ہے، کالعدم تنظیموں کی مالی معاونت پرکچھ لوگ گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے کچھ جہادی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا سوچ رہے ہیں۔ جن کو خصوصی تربیت دے کر سکیورٹی ایجنسیز میں ہی بھرتی پر غور کیا جارہا ہے اس کے علاوہ انہیں بلا سود قرضوں کی فراہمی بھی زیر غور ہے تاکہ وہ اپنی آئندہ زندگی بہتر طور پر گزار سکیں۔
آپ کا تبصرہ