مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ویانا میں قائم بین الاقوامی تنظیموں میں روس کے مستقل نمائندے میخائیل اولیانوف نے کہا ہے کہ ایران کے جوہری معاملے کی موجودہ پیچیدہ صورتحال کی بنیادی وجہ امریکہ اور اسرائیل کی جارحانہ پالیسی ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ آئندہ تین ہفتوں میں ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس ہوگا۔ یہ گزشتہ دس برسوں میں پہلا موقع ہوگا جب یہ جائزہ اقوام متحدہ کی قرارداد 2231 کے تحت نگرانی کی روشنی میں نہیں لیا جائے گا، کیونکہ یہ قرارداد اب قانونی طور پر ختم ہوچکی ہے۔
اولیانوف نے کہا کہ اب آئی اے ای اے کا ڈائریکٹر جنرل صرف جامع حفاظتی اقدامات پر ایک رپورٹ پیش کرے گا، جو اس بات کی علامت ہے کہ ایران کے جوہری معاہدے کے تحت نگرانی کا دائرہ محدود ہوچکا ہے۔ انہوں نے اس صورتحال کو ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کی جارحیت کا نتیجہ قرار دیا۔
واضح رہے کہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں (P5+1) کے درمیان جولائی 2015 میں جوہری معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت ایران نے یورینیم کی افزودگی میں کمی، سینٹری فیوجز کی تعداد میں کمی، اور اراک ری ایکٹر کی ازسرنو تشکیل پر آمادگی کا اعلان کیا تھا تاہم مغربی ممالک حتی کہ اوباما انتظامیہ کے دور میں بھی ایران سے کیے گئے اقتصادی وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے۔ بعد ازاں، 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر معاہدے سے دستبرداری اختیار کرلی، اور یورپی مالیاتی نظام INSTEX بھی ایران کو پابندیوں کے اثرات سے بچانے میں ناکام رہا۔
18 اکتوبر 2025 کو اقوام متحدہ کی قرارداد 2231 کی مدت خودبخود ختم ہوگئی جس کے ساتھ ہی JCPOA کا قانونی دور بھی باضابطہ طور پر اختتام پذیر ہوگیا۔
آپ کا تبصرہ