9 ستمبر، 2025، 10:04 PM

ڈائریکٹر بین الاقوامی امور مہر نیوز کی خصوصی تحریر:

خطے میں بالادستی کا صہیونی منصوبہ اور عرب ممالک کی اسٹرٹیجک غلطی

خطے میں بالادستی کا صہیونی منصوبہ اور عرب ممالک کی اسٹرٹیجک غلطی

عرب ممالک غلط فہمی میں ہیں کہ معاہدہ ابراہیمی انہیں مکمل تحفظ دے گا، اسرائیل نئے علاقائی نظام اور اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے کسی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے دریغ نہیں کرے گا۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، محمد رضا مرادی: اسرائیل نے سال 2023 سے 2025 تک مشرق وسطی کے علاقائی نظم کو دوبارہ تشکیل دینے کے لیے ایک منظم حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ یہ حکمت عملی خطے میں تعلقات کو نئے سرے سے ترتیب دینے پر مبنی ہے جس کا مقصد اسرائیل کی بالادستی قائم کرنے کے لیے مخصوص فوجی حملے اور سفارتی دباؤ استعمال کرنا ہے۔

اس حوالے سے ہم نے گذشتہ دنوں ایک کالم میں کچھ حقائق کی طرف اشارہ کیا تھا۔ یہ عمل اکتوبر 2023 میں غزہ پر حملے سے شروع ہوا اور پھر حزب اللہ، شام، ایران اور اب قطر تک جا پہنچا۔ ٹرمپ کی حمایت سے نتن یاہو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اسرائیل کی کوئی سرحد نہیں اور کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔

شاید جب اسرائیل نے جون 2025 میں ایران پر حملہ کیا تو بعض عرب ممالک کے حکمران دل ہی دل میں ناراض نہیں بلکہ خوش تھے کہ ایک بڑا رقیب اسرائیل کے نشانے پر آگیا۔ لیکن یہی وہ لمحہ تھا جو خطے میں اسٹریٹجک غلطیوں کا آغاز بنا۔ یہ کہانی جو اکتوبر 2023 سے شروع ہوئی تھی ابھی اپنے انجام کے قریب نہیں پہنچی۔ غزہ کی جنگ نقطۂ آغاز تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق غزہ میں 62 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور بدترین قتل عام جاری ہے۔ نتن یاہو نے غزہ کی جنگ کو مشرق وسطی کے نئے نظام کی تعمیر کا آغاز قرار دیا ہے۔ غزہ کے بعد اگلا ہدف حزب اللہ لبنان بنی۔ سید حسن نصراللہ اور حزب اللہ کے کئی رہنما اسرائیل کے ہاتھوں شہید ہوئے اور جنوبی بلکہ وسطی لبنان بھی بارہا اسرائیلی حملوں کا شکار بنا۔ کئی کارروائیوں کے بعد نتن یاہو نے اعلان کیا کہ دشمن اب سانس نہیں لے رہا۔

یہ سلسلہ شام تک بڑھا اور دسمبر 2024 میں بشار الاسد کی حکومت گرگئی۔ اسرائیل نے شمالی محاذ سے بھی اپنے لیے خطرے کو ختم کرلیا۔ اس نئی حکمت عملی کی انتہا جون 2025 میں ایران کے خلاف جنگ تھی۔ اسرائیل نے نطنز، فردو اور سپاہ پاسداران کے کمانڈروں کو نشانہ بنا کر خطے میں اپنی حکمت عملی کے نئے مرحلے کو آشکار کیا۔

اس دوران عرب حکمران محض تماشائی بنے رہے، گویا وہ چاہتے تھے کہ نتن یاہو کے نئے منصوبے کی پیچیدگیوں، خطرات اور ممکنہ نتائج سے خود کو دور رکھ کر محفوظ رہیں اور کسی بھی قسم کے نقصان یا جھٹکے سے بچ نکلیں۔ یہی عرب دنیا کی مہلک اسٹریٹجک غلطی تھی۔ قطر پر حملہ ایک انتباہ ہے۔ یہ پہلا حملہ ہے جو اسرائیل نے کسی خلیجی شیخ نشین ملک پر کیا اور ثابت کیا کہ حتی کہ امریکہ کے قریبی اتحادی بھی محفوظ نہیں ہیں۔

دو روز قبل ٹرمپ نے حماس کو دھمکی دی تھی کہ وہ جنگ بندی کا منصوبہ قبول کرے، لیکن اسرائیل نے سفارت کاری کی میز کو ایک جال بنا دیا۔ یہ حملہ اسرائیلی فوجی ڈاکٹرائن کی ایک بنیادی تبدیلی ظاہر کرتا ہے یعنی جغرافیائی سرحدوں کو عبور کرنا اور سفارتی ضوابط کو بالکل نظر انداز کرنا ہے۔

عرب ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ ابراہیمی معاہدہ انہیں تحفظ فراہم کرے گا مگر یہ محض ایک فریب ہے۔ اسرائیل نئے نظام کی تشکیل کے لیے سب پر حملہ کرے گا۔ عرب امارات، سعودی عرب، کویت، بحرین اور دیگر ممالک کو اس اسٹریٹجک غلطی سے دور رہنا ہوگا۔

قطر پر صہیونی حملے کا پیغام بالکل واضح ہے کہ اگر آپ خطے میں سب سے بڑی امریکی فوجی چھاؤنی کی میزبانی بھی کرتے ہوں تو بھی محفوظ نہیں۔ اسرائیل نے دوحہ پر حملے کے ذریعے یہ پیغام پورے خطے کو بھیج دیا ہے۔ ان حالات میں عرب۔ایران اتحاد ضروری ہے تاکہ اسرائیل کے اس نئے نظام کو روکا جاسکے، ورنہ ممکن ہے اسرائیل مطلوبہ مشرق وسطی کی تشکیل کے لیے کئی ممالک کا جغرافیہ ہی بدل دے اور پورا خطہ عدم استحکام سے دوچار ہوجائے۔

News ID 1935269

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha