مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیج فارس کے جنوبی ممالک کا دورہ کیا۔ امریکی جریدے "نیویورکر" کے مطابق، اس دورے کا اصل حاصل صرف عرب تیل کے ڈالروں کو امریکی معیشت اور اسلحہ ساز صنعت کی جانب کھینچنا تھا۔
خلیج فارس تعاون کونسل کے اراکین اقتصادی و سماجی شعبے میں خود کو جدید اور ترقی یافتہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، درحقیقت ٹرمپ کی موجودگی کو اپنی بادشاہتوں کے استحکام اور نئے اقتصادی مواقع کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار خلیج فارس کے صحرائی ممالک میں سرمایہ لگانے کے بجائے وہاں سے سرمایہ نکالنے کے خواہاں ہیں۔ یہی سوچ ٹرمپ اور خلیج فارس ممالک کے حکمرانوں کی مشترکہ نشست میں بخوبی عیاں تھی۔ اس ناگفتہ بہ صورتحال سے نظریں چراتے ہوئے ٹرمپ نے ایران اور خلیجی فارس کی ریاستوں کی صورتحال کا ایک مضحکہ خیز موازنہ کرکے ان خشک و بیابانی ممالک کی خوبصورتی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔
ٹرمپ کا خلیجی ممالک میں نفع بخش کاروبار
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس واپسی کے بعد اپنے پہلے مشرق وسطی کے دورے میں 13 سے 16 مئی کے دوران سعودی عرب، قطر اور عرب امارات کا سفر کیا۔ اس دورے میں ان کے ہمراہ وزیر خارجہ مارکو روبیو، وزیر دفاع پیٹ ہگسٹ، وزیر تجارت، صدر کے دفتر کی سربراہ سوزی وائلز، وزیر خزانہ اسکاٹ بسینٹ اور ٹیسلا کمپنی کے مالک ایلن مسک بھی شامل تھے۔
اس دورے سے قبل امریکہ اور خلیجی فارس کے ممالک کے درمیان تجارتی حجم 180 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ لیکن اس دورے میں سعودی عرب کے ساتھ 600 ارب ڈالر، قطر کے ساتھ 243 ارب ڈالر اور امارات کے ساتھ 200 ارب ڈالر کے معاہدے طے پائے، جن میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس، خلائی ٹیکنالوجی، توانائی اور صنعتی شعبے شامل ہیں۔ اس سے پہلے، طحنون بن زاید کے واشنگٹن دورے کے دوران یہ اطلاع ملی تھی کہ اماراتی حکام نے امریکہ میں 1.4 ٹریلیَن ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق صدر ٹرمپ نے اس دورہ خلیج فارس کو ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے مجموعی وعدوں کے ساتھ مکمل کیا۔ ان معاہدوں کا بڑا حصہ ٹرانزٹ، مصنوعی ذہانت، ایوی ایشن، خلائی ٹیکنالوجی، معدنیات، صحت اور میڈیکل تعلیم کے شعبوں پر مشتمل تھا۔
صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ خلیج فارس ممالک کے دورے میں عسکری شعبے میں بھی قابل ذکر معاہدوں پر دستخط کیے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ دوطرفہ ملاقات کے بعد امریکہ اور سعودی عرب کے مابین اسٹریٹجک اقتصادی شراکت کے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس کے علاوہ سعودی مسلح افواج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ایک الگ مفاہمتی یادداشت بھی طے پائی۔ یادداشت پر سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان اور ان کے امریکی ہم منصب پیٹ ہگسٹ نے دستخط کی۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک نے 142 ارب ڈالر کے اسلحہ معاہدے پر بھی دستخط کیے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکی اور قطری وفود کی ملاقات کے دوران بھی 160 بوئنگ طیاروں کی خریداری کا 200 ارب ڈالر مالیت کا معاہدہ طے پایا۔ مزید برآں، امریکہ اور قطر کے درمیان عسکری شعبے میں کئی نئے معاہدے بھی ہوئے، جن میں جدید فوجی طیارے، ایم کیو-9 ریپر ڈرونز، اور ایک ارب ڈالر کی اینٹی ڈرون سسٹمز کی خریداری شامل ہے۔ مجموعی طور پر دفاعی معاہدوں کی مالیت 3 ارب ڈالر بتائی گئی ہے۔
یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود ہو رہا ہے کہ خطے کے بیشتر حکمران داخلی و خارجی خطرات کے باعث مسلسل مشکلات کا شکار ہیں اور امریکہ کو ایک ایسے حامی کے طور پر دیکھتے ہیں جو ان کے اقتدار اور بقا کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اگرچہ یہ تصور بارہا شکست کھا چکا ہے اس کے باوجود اب بھی امریکی پالیسی ساز خلیج فارس ممالک کے حکام کے سامنے خود کو ایک محافظ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ان حالات میں خلیج فارس تعاون کونسل کے ممالک بظاہر متوازن پالیسی اپنا رہے ہیں جس کے تحت وہ بظاہر تمام طاقتوں سے تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر درحقیقت سکیورٹی کی مکمل چابی واشنگٹن کے ہاتھ میں تھما دی گئی ہے۔ اسی حکمت عملی کے تحت ٹرمپ نے اپنے اس دورے میں دوبارہ واشنگٹن کے سکیورٹی کردار کو اجاگر کرتے ہوئے عرب ممالک کے سامنے خود کو ایران اور مزاحمتی محاذ سے لاحق خطرات کے خلاف ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا۔ بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکی حکام اسرائیل کے ساتھ کچھ سطحی اختلافات کو ظاہر کرکے خلیج فارس ممالک کو سکیورٹی گارنٹی کا دائرہ وسیع کرنے کا تاثر دے رہے ہیں، تاکہ خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھ سکیں۔
بے مقصد شور و شرابا
صدر ٹرمپ کی جانب سے عرب ممالک کے ترقیاتی فنڈ سے ایک ٹریلین ڈالر نکالنے کے باوجود، بنیادی سوال یہ ہے کہ امریکہ کے صدر کی خلیج فارس کے جنوبی ممالک کے دورے سے مشرق وسطی کے عوام کو کیا حاصل ہوا؟ گزشتہ برسوں میں واشنگٹن نے خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک اور اسرائیل کو مضبوط بنا کر ایک نیا اقتصادی، سیاسی اور سکیورٹی محور تشکیل دینے کی کوشش کی تاکہ چین، روس اور ایران جیسی طاقتوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ اسی دوران امریکہ نے ایران اور مزاحمتی محور پر مختلف الزامات عائد کئے۔ یہ تخریبی عمل پابندیوں، دہشت گردی، جنگ اور دیگر حربوں کے ذریعے انجام دیا گیا۔ عراق، شام اور لبنان کی موجودہ صورتحال سے امریکی تخریب کاری کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
تقریبا 16 برس تک امریکہ نے ترکی، اسرائیل اور انتہاپسند عرب ممالک کے ساتھ مل کر شام کو خانہ جنگی اور اقتصادی پابندیوں میں جھونک دیا تاکہ شام اور خطے کی سیاسی فضا تبدیل کی جاسکے۔ اب جبکہ تکفیری دہشت گرد گروہ دمشق میں قابض ہے تو ٹرمپ نے محمد بن سلمان کی درخواست پر شام کے محاصرے کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے! لیکن اس شاہی مہربانی کے بدلے شام کو نہ صرف "ابراہیم معاہدہ" میں شامل ہونا پڑے گا، بلکہ اپنے توانائی کے وسائل بھی مستقل طور پر مغربی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کے حوالے کرنے ہوں گے۔
حاصل سخن
دنیا کی سب سے بڑی فوج کا حالیہ یمنی مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ خطے کے حکمرانوں نے ایک ہارنے والے گھوڑے پر شرط لگا دی ہے۔ اگرچہ مغربی پروپیگنڈا مشین یہ تاثر دینے میں مصروف ہے کہ اس کے B-2 اسٹریٹجک بمبار، F-35 جنگی طیارے اور طیارہ بردار بحری بیڑے ناقابل شکست جنگی مشینیں ہیں، لیکن عملی میدان میں امریکی فوج تنہا فیصلہ کن طاقت نہیں ہے، اور کئی محاذوں پر اس کی جنگی حکمت عملی کو شکست کا سامنا ہے۔ ایک بات بالکل واضح ہے کہ جب امریکہ اپنے اسٹریٹجک اثاثوں کا خود مناسب دفاع نہیں کر سکتا، تو وہ خلیج فارس ممالک کی سیکیورٹی اور مفادات کی حفاظت بھی یقینی طور پر نہیں کر سکتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سلامتی کا سودا فرانس کے عطروں کی طرح صرف خریدا جاسکتا ہے یا یہ مہنگے معاہدے عدم استحکام، انتشار اور بدامنی کے نئے دور کا آغاز ثابت ہوں گے۔
آپ کا تبصرہ