مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، اسرائیلی حکومت نے دمشق کے نواح علاقے صحنایا کی دروز آبادی کی حمایت کے بہانے فضائی حملے کیے ہیں اور اپنے بیانات میں سویدا، جبل الرابع اور دیگر علاقوں میں دروز قبیلے کے دفاع کا دعویٰ کیا ہے۔ جب کہ اس رژیم کی پالیسیوں میں بہت بڑا تضاد پایا جاتا ہے۔
تل ابیب خود کو شام کے دروز آبادی والے علاقوں کی سلامتی کے ضامن کے طور پر ایک ایسے وقت میں پیش کرنا چاہتا ہے جب ملک کی دروز کی اکثریت کھلے عام اسرائیلی مداخلت کو مسترد کرتی ہے اور اپنی عرب اور شامی شناخت پر قائم رہنے پر زور دیتی ہے۔
جب مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں دروز کی مخصوص خصوصیات پر غور کیا جائے تو یہ تضاد مزید گہرا ہو جاتا ہے۔
1967 میں صیہونیوں کے اس علاقے پر قبضے کو 5 دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود گولان کے دروز قبیلے نے "جعلی اسرائیلی رژیم کی شہریت" کو قبول کرنے سے انکار کر رکھا ہے اور صیہونی حکومت کی جانب سے انہیں زبردستی اپنے معاشرے میں ضم کرنے کی وسیع کوششوں کے باوجود، وہ اپنی شامی شناخت پر مصر ہیں۔
شام میں صیہونی رژیم کا خطرناک منصوبہ
یہ واضح ہے کہ کوئی بھی، حتیٰ کہ صیہونی حکومت کے شراکت دار بھی، شام میں دروز کی حمایت کے لیے اس رژیم کے انسانی ہمدردی کے دعووں پر یقین نہیں کرتے، اور سب جانتے ہیں کہ اسرائیل شام کی سرزمین پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے اور ملک کو تقسیم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
جنوبی شام میں دروز آبادی والے علاقے، خاص طور پر سویدا، اقلیتوں کا استحصال کرکے شام میں اپنے اثر و رسوخ کو گہرا کرنے کے لیے قابض حکومت کے منصوبے کا حصہ ہیں۔
شام میں مزید قبضہ گیری کے لیے اسرائیلی حکومت کے سیکورٹی اور سیاسی حلقوں میں جن منصوبوں کی تجویز پیش کی گئی ہے، ان میں "ڈیوڈ کراسنگ" نامی منصوبہ بھی شامل ہے۔
ایک ایسا منصوبہ جو جنوب میں مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں سے سویدا اور درعا کے صوبوں تک پھیلا ہوا ہے اور پھر شمالی شام میں کردوں کے زیر اثر علاقوں سے جڑتا ہے۔
یہ کراسنگ ایک اسٹریٹجک پٹی بناتی ہے جو شام کو لبنان سے الگ کرتی ہے، اور اس کا سکیورٹی مقصد اقلیتوں، خاص طور پر دروز کے تحفظ کے دعوے کے ساتھ ایک بفر زون بنانا ہے۔
درحقیقت اس کراسنگ کے ذریعے صیہونی حکومت شام کو جغرافیائی اور تزویراتی طور پر مزاحمتی محور کے ساتھ کسی بھی طرح کے رابطے سے الگ تھلگ کرنا چاہتی ہے۔ تاہم، اس راہداری کی اہمیت صرف سکیورٹی کی سطح تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ صہیونی ڈیوڈز پاس منصوبے کے ذریعے دوسرے مقاصد بھی حاصل کر رہے ہیں۔
صیہونی حکومت مشرقی بحیرہ روم کو خلیج فارس سے جوڑنے اور اردن، عراق اور ترکی کے راستے گیس کی نقل و حمل کے منصوبوں اور زمینی تجارت میں حصہ لے کر اپنے آپ کو خطے میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر منوانا چاہتی ہے۔
یہ مقبوضہ فلسطین کی بحیرہ روم کی بندرگاہوں یعنی حیفہ اور اشدود کو ایک طرف اردن اور عراق کے ذریعے خلیج فارس تک زمینی گزرگاہوں کے ساتھ اور دوسری طرف یورپ اور وسطی ایشیا کے لیے گیٹ وے کے طور پر ترکی کی سرزمین سے جوڑ کر حاصل کیا گیا ہے۔
قابض رژیم کے لئے ڈیوڈ کراسنگ محض ایک سکیورٹی بیلٹ نہیں ہے بلکہ یہ ایک اسٹریٹجک انفراسٹرکچر ہے جو اسرائیل کو خطے کے توانائی کے نظام میں ایک کڑی بننے کے قابل بناتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ صیہونی حکومت ڈیوڈ پاس کے منصوبے کو اپنے لیے ایک اسٹریٹجک فائدے کے طور پر فروغ دینے پر راضی نہیں ہے، بلکہ وہ اسے ایک اخلاقی منصوبے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس طرح شام میں اپنی فوجی مداخلت کو جواز بنا کر، خاص طور پر دروز آبادی والے علاقوں میں، اقلیتوں کو ملک کی نئی حکومت کے جبر سے بچانے کا دعویٰ کر رہی ہے!
شام کے دروزیوں کے لیے صہیونیوں کے مگرمچھ کے آنسو
صیہونی حکومت کے انسانی ہمدردی کے جھوٹے دعوؤں پر کوئی بھی یقین نہیں کر سکتا اور شامی اس بات کو کبھی نہیں بھولیں گے کہ جب دہشت گرد تکفیری گروہ جبہہ النصرہ (موجودہ ہیئت تحریر الشام) نے اسی الجولانی کی قیادت میں، جبل السماق اور سویدا کے دروز دیہات پر حملہ کیا، تو تل ابیب نے اس دہشت گرد گروہ کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے ڈالر اور امدادی سامان بھیجا۔
صیہونی حکومت کی اس دوہری پالیسی نے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں کی دروز کمیونٹی میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی جس کے نتیجے میں صیہونیوں کے خلاف متعدد پرتشدد مظاہرے ہوئے اور شہریوں نے النصرہ فرنٹ کے زخمی دہشت گردوں کو اسپتال لے جانے والے اسرائیلی ایمبولینسوں پر پتھراو کیا۔
صیہونی بیانیے میں تضاد یہاں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس رژیم نے شام میں دہشت گردی کے بحران کے دوران دروزیوں کی نسل کشی کے لیے النصرہ دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کیا اور آج نہایت ڈھٹائی سے شام کی دروز کمیونٹی کی حمایت کا دعویٰ کرتی ہے!
ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ معاشی اور جیو پولیٹکل مفادات کی وجہ سے ہے جنہیں قابض حکومت خطرے سے دوچار اقلیتوں کے لیے اخلاقی ذمہ داری کے دائرے میں پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے!
شامی دروز کے بارے میں صیہونی حکومت کی پالیسی کو صرف ایک وسیع تر حکمت عملی کے حصے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ جس کے تحت ممالک کے حصے بخرے کر کے تل ابیب پر انحصار کرنے والی بظاہر خود مختار ریاستوں کے قیام کے ذریعے خطے کو نئے سرے سے تشکیل دیا جاسکے۔
اس دوران شام کے سامنے واحد آپشن یہ ہے کہ ملک کی حقیقی قومی قوتیں پہل کریں اور اپنے ملک کو ٹوٹ پھوٹ اور صیہونی رژیم اور اس کے شراکت داروں کے خطرناک منصوبوں سے بچانے کے لیے ایک جامع قومی منصوبہ تشکیل دیں۔
آپ کا تبصرہ