مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ برطانوے نشریاتی ادارے بی بی سی (ٹی وی چینل) کے سو سے زائد ملازمین نے غزہ جنگ سے متعلق خبروں کی کوریج میں صیہونی رجیم کی حمایت اور "معروضی شواہد پر مبنی صحافت" کی کمی کا الزام لگاتے ہوئے اس چینل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
مذکورہ چینل کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی اور سی ای او ڈیبورا ٹیرینس کو لکھے گئے ایک خط میں کہا گیا ہے کہ "جب اسرائیل کو اس کے اعمال کے لئے جوابدہ ٹھہرانے کی بات آتی ہے، تو صحافت کے بنیادی اصول پامال کئے جاتے ہیں اور ناکافی خبروں کی کوریج کے نتائج ڈرامائی اور شرمناک ہیں۔ ہر ٹی وی رپورٹ، آرٹیکل اور ریڈیو انٹرویو میں منظم طریقے سے فلسطینیوں کو قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے! یہ چینل فیصلہ کن طور پر اسرائیل کے دعووں کو چیلنج کرنے میں ناکام رہا ہے۔
واضح رہے کہ صیہونی حکومت کے "طوفان الاقصی" کے بعد شروع ہونے والی غزہ جنگ میں اب تک 43 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
بی بی سی کے ڈائریکٹر کو لکھے لئے خط کے دستخط کنندگان میں اس چینل کے سو سے زائد ملازمین اور میڈیا انڈسٹری کے 200 سے زائد کارکن، مورخین، اداکار، یونیورسٹی کے پروفیسرز اور سیاست دان شامل ہیں، جنہوں نے بی بی سی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ رپورٹنگ کے دوران صحافتی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے اسرائیل پر غیر ملکی صحافیوں کی غزہ تک رسائی کے لئے دباو بڑھائے اور اسرائیل کے دعووں کے ناکافی شواہد کو برملا کرے نیز ایسے معاملات کے بارے میں مضامین کی سرخیوں کو واضح کرے جہاں اسرائیل نے جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور اسی طرح چینل کے تمام انٹرویوز میں اسرائیل کے سیاسی اور فوجی حکام کے جرائم کو سختی سے چیلنج کرے۔
خیال رہے کہ بی بی سی ہمیشہ امریکہ اور یورپ کے تسلط پسندانہ سامراجی بیانئے کی وکالت میں پیش پیش رہا ہے اور یہ نشریاتی ادارہ عالمی منظر نامے کی تمام کمزور اقوام اور مزاحمتی تحریکوں کے خلاف ظالم طاقتوں کی حمایت میں شرمناک حد تک رپورٹنگ کرتا آیا ہے۔ غزہ اور لبنان کے خلاف جاری اسرائیلی جارحیت کے دوران بھی برطانوی میڈیا نے حسب سابق اسرائیل نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے انسانی حقوق اور صحافتی اصولوں کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔
بی بی سی کی جانبدارانہ رپورٹنگ سے دنیا کے آزاد انسانوں پر مغربی ذرائع ابلاغ کی اصلیت آشکار اور ان کا دوغلاپن واضح ہوا ہے۔
آپ کا تبصرہ