مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جنرل پاکپور نے سیستان و بلوچستان کے جنوب میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کی تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے مزید کہا کہ گزشتہ رات چابہار، راسک شہر اور چابہار پولیس اسٹیشن میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد فوری طور پر زمینی افواج اور پولیس فورسز کے بنیادی اقدامات کو ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ متعدد مقامات پر مربوط طریقے سے دہشت گردانہ کارروائیاں کی گئیں اور اس میں حصہ لینے والے دہشت گرد عناصر سبھی ایک گروہ کا حصہ تھے،دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں جاری ہیں اور ان کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پاسداران انقلاب کی زمینی فورس کے کمانڈر نے بیان کیا کہ چابہار میں میرین کور کے دو علاقوں اور پولیس اسٹیشن کو دہشت گرد گروہوں نے نشانہ بنایا، دہشت گرد پاسداران انقلاب کے ہیڈ کوارٹر کی عمارت میں داخل ہو کر گارڈز پر حملہ کرنا چاہتے تھے، اس کارروائی میں سات دہشت گرد ملوث تھے، عمارت کے اندر پانچ افراد مارے گئے۔
جنرل پاکپور نے کہاکہ ہمارے سامنے اہم مسئلہ یرغمالیوں کا تھا جنہیں چھڑایا گیا اور اب خصوصی یونٹ کا کلین آپریشن جاری ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ بیک وقت کی جانے والی تینوں دہشت گردانہ کارروائیوں میں15 دہشت گرد مارے گئے، جن کی تعداد بڑھ کر 18 ہو سکتی ہے جب کہ پانچ اہلکار بھی شہید ہوگئے ہیں ۔
سپاہ کی زمینی فورس کے کمانڈر نے کہا کہ چابہار اور راسک میں سیکورٹی کی صورتحال معمول کے مطابق ہے۔
شہداء کی تعداد گیارہ ہوگئی
ایک باخبر ذریعے نے بتایا کہ جنوبی سیستان و بلوچستان میں جیش الظلم کے دہشت گردانہ حملوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد 11 ہو گئی۔
ایک باخبر ذریعے نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ دستیاب معلومات کے مطابق اب تک راسک اور چابہار میں جیش الظلم دہشت گردانہ حملے میں پولیس کے دو افسر، دو نیوی اہلکار اور سپاہ اور بسیج کے سات اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔ جب کہ اب تک 16 دہشت گرد مارے جا چکے ہیں جن تعداد 18 تک بڑھنے کا امکان ہے۔
مذکورہ ذریعے نے مزید بتایا کہ راسک میں کشیدگی ختم ہو چکی ہے اور چابہار میں نیوی بلڈنگ بھی دہشت گردوں سے پاک کی جا رہی ہے اور دونوں شہروں میں سیکورٹی کی صورتحال معمول کے مطابق جاری ہے۔
آپ کا تبصرہ