مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی گروپ: طوفان الاقصیٰ آپریشن کے تین ماه بعد بیروت میں حماس كے رہنما صالح العاروری کا قتل حزب اللہ اور صیہونی حکومت کے درمیان جاری جنگ میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔
لبنانی مزاحمت نے اپنے ابتدائی ردعمل میں میرون پہاڑی كی اسرائیلی فوجی تنصیبات کو 62 میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ كیونكہ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے شدید ردعمل كا عندیہ دیا تھا، جس كے بعد شمالی محاذ میں لبنانی فورسز اور صہیونی فوج کے درمیان جھڑپ شدت اختیار کر گئی۔
ایسا لگتا ہے کہ حزب اللہ لبنان میں مزاحمت کے کمانڈروں اور سیاسی شخصیات کے قتل کے نتائج سے صیہونیوں کو خبردار کرنے کے لیے تل ابیب کے سامنے نئی ریڈ لائن کھینچنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
لہذا تل ابیب کے خلاف اپنی اٹھارہ سالہ ’ڈیٹرنس‘ کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مشرقی بحیرہ روم کے علاقے میں جنگ کے دائرہ کار کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ’جارحانہ‘ انداز اپنایا جائے۔
اس آرٹیکل میں ہم صیہونی حکومت کے خلاف لبنان کی حزب اللہ کی نئی جنگی حکمت عملی کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
صیہونیوں کے لئے بلیک سنیچر
میرون پہاڑی پر حزب اللہ کے راکٹ یونٹس کے زبردست حملے کے بعد اس تحریک کے میڈیا ونگ نے بیانات جاری کرکے سرحدی علاقوں میں اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں کے سلسلے کی ذمہ داری قبول کی۔
ان بیانات میں کہا گیا ہے کہ حزب اللہ نے صیہونیوں کے ٹھکانوں کو مناسب ہتھیاروں سے نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی فضائیہ کے دو اہم اڈوں میں سے ایک پر لبنانی مزاحمت کے بے مثال حملوں کے جواب میں اسرائیلی فوج نے ممنوعہ سفید فاسفورس گولہ بارود کا استعمال کرتے ہوئے جنوبی لبنان کو نشانہ بنایا جو کہ اس رجیم کی بربریت کا کھلا ثبوت ہے۔
پانچ جنوری کو شمالی محاذ میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران لبنانی مزاحمت کا ایک گروپ شہید ہوا اور شہری علاقوں پر اسرائیل کے حملوں میں اضافے کے سبب حزب اللہ نے لبنانی عوام سے اپیل کی کہ وہ غاصب رجیم کے زیرقبضہ علاقوں کے قریب نہ جائیں اور زخمیوں کی مدد کا عمل امدادی فورسز پر چھوڑ دیں۔
اس کے ساتھ ہی لبنانی مزاحمت نے صیہونی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے لبنان میں شہری اہداف پر حملے جاری رکھے تو حزب اللہ بھی صیہونی بستیوں کے خلاف جوابی حملے کرے گی۔
نیتن یاہو اور بحرانی حالات
حزب اللہ اور صیہونی حکومت کے درمیان لفظی جنگ کا تبادلہ سید حسن نصر اللہ کی صالح العاروری کے قتل کا بدلہ لینے کی دھمکی کے صرف ایک دن بعد ہوا شروع ہوا جب مقبوضہ شمالی فلسطین کے آبادکاروں کی طرف سے اسرائیلی فوج کو لبنان پر حملہ کرنے کی اجتماعی درخواست دی گئی جس کے جواب میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس ممکنہ جنگ کی قیمت سب سے پہلے مقبوضہ شمالی فلسطین کے آبادکار ادا کریں گے۔
اس سے قبل بعض عبرانی ذرائع نے گالانٹ اورنیتن یاہو کے اقتدار میں رہنے اور مقبوضہ علاقوں کے شمال میں ایک نیا محاذ کھولنے کے لیے سرحدی کشیدگی میں اضافے کی منصوبہ بندی کے بارے میں اطلاع دی تھی۔
دوسرے لفظوں میں 7 اکتوبر کے حملے کے ممکنہ نتائج جیسے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل، عدالتی مقدمات اور کابینہ کی تحلیل سے بچنے کے لیے موجودہ اسرائیلی وزیراعظم کو جنگ کو جاری رکھنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ملا۔
تاہم صیہونی حکومت اور لبنان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافے کے ساتھ ہی یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل اور بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے نمائندے آموس ہیسٹین نے مقبوضہ علاقوں کا دورہ کیا تاکہ شامات کے علاقے میں "سفارتی آپشن کے ذریعے ایک قریب الوقوع جنگ کو روکا جا سکے۔
در این اثناء واشنگٹن_برسلز سفارتی نقل و حرکت بڑھا کر حزب اللہ اور صیہونی حکومت کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کوشاں ہے، کیونکہ اسرائیلی فوج نے جنگ کے خاتمے اور اس خطے میں انسانی امداد بھیجنے کے عالمی مطالبے کی پرواہ کئے بغیر جنگ کا دائرہ جنوب تک پھیلایا اور یہ سلسلہ مزید پھیلتا جا رہا ہے۔
ایسی صورت حال میں مزاحمتی محور کے لئے "محاذوں کے اتحاد" کی حکمت عملی کے تحت اپنے دینی بھائیوں کے دفاع کے لیے صہیونیوں کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
اگر تل ابیب کسی بھی قیمت پر غزہ میں جنگ جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے مقبوضہ فلسطین کے شمال اور جنوب کو خالی کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے اور غزہ کے علاقے میں اسلامی مزاحمتی تحریک کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کی صورت میں ایلات بندرگاہ کی تجارتی سرگرمی صفر تک پہنچ جائے گی جو اسرائیل کے دیگر اقتصادی مراکز کے انجام کو سمجھنے کے لیے ایک اچھی مثال ہو سکتی ہے۔
نتیجہ
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے حالیہ خطاب کے دوران انہوں نے ایک بار پھر میدان جنگ میں لبنانی مزاحمت اور صیہونی حکومت کے درمیان محاذ آرائی کی نئی جہتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ حزب اللہ نے غزہ کی پٹی میں طوفان الاقصی آپریشن اور مزاحمتی گروپوں کی حمایت میں 8 اکتوبر سے اسرائیلی فوج کے خلاف ٹارگٹ حملے شروع کر دیے ہیں۔
ان کے مطابق جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیل کے خلاف تقریباً 670 فوجی آپریشن کیے جا چکے ہیں، جس میں 48 فوجی اڈوں، مقبوضہ فلسطینی علاقے میں گیارہ ہیڈ کوارٹرز، 50 سرحدی مقامات اور 17 قصبوں پر حملے شامل ہیں۔
اس کے علاوہ مقبوضہ فلسطین کے شمال میں صہیونی بستی پر حزب اللہ کے تباہ کن حملوں نے ڈھائی لاکھ صہیونیوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے۔
لبنانی مزاحمتی تنظیم کے سیکرٹری جنرل کی حالیہ تقریر اور شمالی محاذ کی موجودہ صورت حال سے ایسا لگتا ہے کہ حزب اللہ اسرائیل کی جنگی جارحیت کے خلاف اپنی پوزیشن کو مزید جارحانہ بنا کر لبنانی سرحد پر بڑے پیمانے پر جنگ کو روکنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
دوسری طرف عبرانی روزنامہ یروشلم پوسٹ کے نے اپنے ایک مضمون میں دعویٰ کیا کہ حزب اللہ کی "رضوان" فورسز سرحدی زیرو پوائنٹ سے دو تین کلومیٹر دور چلی گئی ہیں۔ میدانی نقل و حرکت اور مزاحمتی راکٹ حملوں کے دائرہ کار میں توسیع اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حزب اللہ "علاقائی جنگ" کو روکنے کے لیے صیہونی حکومت کے ساتھ سفارتی مذاکرات اور زمینی جنگ کو ہوشیاری سے آگے بڑھا رہی ہے۔
اگر مغربی طاقتیں واقعی علاقائی جنگ کو روکنا چاہتی ہیں تو انہیں سب سے پہلے تل ابیب پر مکمل جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے عمل کو آسان بنانا چاہیے۔
کیونکہ صالح العاروری کا قتل یا غزہ کے مختلف حصوں پر زمینی حملوں کا تسلسل جنگ کو مزید پیچیدہ بنانے اور تنازع کے فریقین کے درمیان ممکنہ جنگ بندی میں رکاوٹ کا باعث بنے گا۔
آپ کا تبصرہ