1 نومبر، 2025، 6:59 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

لبنان میں جنگ بندی خطرے میں، نئی صہیونی جارحیت کے بڑھتے ہوئے امکانات

لبنان میں جنگ بندی خطرے میں، نئی صہیونی جارحیت کے بڑھتے ہوئے امکانات

حزب‌اللہ کی جانب سے غیر مسلح ہونے کے مطالبے کو سختی سے مسترد کیے جانے کے بعد، جنوبی لبنان میں کشیدگی بڑھ گئی ہے اور اسرائیل کی ممکنہ نئی جارحیت کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: لبنان ایک بار پھر شدید سفارتی اور عسکری کشیدگی کی لپیٹ میں ہے، جہاں جنگ بندی کا معاہدہ خطرے میں پڑچکا ہے اور اسرائیل کی جانب سے ممکنہ نئی جارحیت کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ جنگ سوم لبنان کے ایک سال بعد، ملک کا سیاسی منظرنامہ ایک پیچیدہ سفارتی محاذ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، ابتدائی طور پر جنگ بندی کے معاہدے کو امن و استحکام کا ذریعہ سمجھا گیا تھا، مگر اب یہ ایک اسٹریٹجک جنگ کا میدان بن چکا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نے حزب‌اللہ کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنے کو مستقبل کے امن کی شرط قرار دیا ہے، جسے وہ ناقابل مذاکرات قرار دیتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہی واحد راستہ ہے جس سے خطے کو ایک اور تباہ کن جنگ سے بچایا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب، حزب‌اللہ نے اس مطالبے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اپنے اسلحے کو لبنان کی بقا اور بیرونی خطرات کے خلاف واحد مؤثر دفاعی ذریعہ قرار دیا ہے۔ اس موقف نے ملک کو ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے، جہاں سیاسی اور عسکری فیصلے غیر یقینی کا شکار ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی نمائندے اور اسرائیلی دباؤ بیروت میں سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہورہے ہیں، جس سے ملک میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔ جنوبی لبنان میں اسرائیلی افواج کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں معمول بن چکی ہیں، جن سے خطے میں تناؤ اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ اسرائیل نے اب تک لبنان کی سرزمین پر پانچ اسٹریٹجک مقامات پر قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے، اور جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں نے سرحدی علاقوں کو ایک خطرناک اور غیر متوقع ماحول میں دھکیل دیا ہے۔

اس کشیدگی کے صرف عسکری نہیں بلکہ سیاسی سطح پر بھی شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ صور کے علاقے میں واقع گاؤں آرام البیاد میں ایک المناک واقعہ پیش آیا، جس میں کئی بے گناہ شہری شہید ہوئے۔ اقوام متحدہ کے امن مشن پر بھی حملے کیے گئے، جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر حالات پر قابو نہ پایا گیا تو خطہ ایک نئی اور تباہ کن جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے، جس کے اثرات صرف لبنان ہی نہیں بلکہ پورے مشرق وسطی پر پڑسکتے ہیں۔

کمزور امن اور ہمہ گیر جنگ کے درمیان انتخاب

خوف اور بے اعتمادی سے بھرپور فضا میں لبنان میں مکمل امن کے خاتمے کو روکنے کی سفارتی کوششیں ایک نازک مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کی خصوصی ایلچی مورگن اورتگاس کا بیروت کا دورہ، سعودی وزیر خارجہ کے مشیر یزید بن فرحان اور مصر کے خفیہ ادارے کے سربراہ حسن رشاد کی آمد، اس نازک سفارتی توازن کو برقرار رکھنے کی ایک آخری کوشش کی علامت ہے۔

ان مذاکرات کا مرکزی نکتہ نومبر 2024 کے جنگ بندی معاہدے کی سب سے اہم اور مشکل شق پر عمل درآمد ہے، یعنی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا اور جنوبی لبنان میں صرف لبنانی فوج اور اقوام متحدہ کی امن فوج (یونیفل) کی موجودگی کو یقینی بنانا۔ تاہم، یہ کوششیں واشنگٹن کی سخت تنبیہات کے ساتھ جاری ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ اگر لبنان نے فیصلہ کن اقدام نہ کیا تو اسرائیل کے ساتھ ایک نئی فوجی جھڑپ ناگزیر ہوجائے گی۔

یہ سفارتی دباؤ ایسے وقت میں ڈالا جا رہا ہے جب حزب اللہ نے غیر مسلح ہونے کو سختی سے مسترد کردیا ہے اور دفاع کے لیے مکمل تیاری کا اعلان کر کے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ یہ سیاسی جمود اور ساتھ ہی بڑھتے ہوئے فوجی حملے، لبنان کی موجودہ حکومت (عون-سلام) کو ایک خطرناک دو راہے پر لا کھڑا کرچکے ہیں یعنی بین الاقوامی دباؤ کے سامنے جھکنا ہوگا جس سے اندرونی خانہ جنگی کا خطرہ ہے، یا مزاحمت اور ایک ایسی تباہ کن جنگ کا سامنا کرنا ہوگا جو اس بار پہلے سے کہیں زیادہ وسیع ہوسکتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر لبنان کی موجودہ حکومت زمینی حقائق کو مدنظر رکھے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے گی کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا تصور عملی طور پر ناممکن ہے، اور یوں وہ داخلی خانہ جنگی کے جال میں پھنسنے سے بچ سکتی ہے۔

جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی؛ ایک نئی جنگ کا خطرہ

نومبر 2024 کی کمزور جنگ بندی، کاغذی معاہدوں سے زیادہ، جنوبی اور مشرقی لبنان میں اسرائیلی فضائی حملوں کی دھماکہ خیز آوازوں اور دھوئیں کے سائے میں تحلیل ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوجی کارروائیاں، جو حزب اللہ کے بنیادی ڈھانچے اور ارکان کو نشانہ بنانے کے بہانے کی جاتی ہیں، اب ایک روزمرہ معمول بن چکی ہیں۔ صرف چند دنوں میں ان حملوں میں تیرہ سے زائد افراد کی جانیں ضائع ہوگئیں، جن میں ایک لکڑی کی فیکٹری میں کام کرنے والے دو بھائی اور حزب اللہ کا ایک اعلی کمانڈر شامل ہیں۔

زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ تشدد اب اقوام متحدہ کی امن فوج (یونیفل) کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اسرائیلی ڈرون کی جارحانہ پرواز، ٹینکوں کی فائرنگ، اور یونیفل کی کشتیوں کے قریب دستی بم پھینکنے جیسے اقدامات نے عالمی برادری کو چونکا دیا ہے۔ اقوام متحدہ اور فرانس نے ان واقعات پر سخت ردعمل دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان نے ان کارروائیوں کو انتہائی خطرناک قرار دیا، جو اس بات کی علامت ہے کہ امن قائم رکھنے کے لیے تعینات بین الاقوامی فورسز خود اس پیچیدہ تنازع کا نشانہ بن چکی ہیں، اور یہ صورتحال خطے میں استحکام کی آخری امیدوں کو ختم کرنے کے قریب ہے۔

حاصل سخن

لبنان کا منظرنامہ ایک دردناک تضاد اور واضح دوہرے معیار کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک طرف وہ طاقت ہے جو مکمل آزادی کے ساتھ جنگ بندی کو پامال کرتی ہے، لبنان کی سرزمین پر قبضہ برقرار رکھتی ہے اور عام شہریوں کا خون بہاتی ہے؛ جبکہ دوسری طرف عالمی برادری کی انگلیاں الزام اور دھمکی کے طور پر اس قوم کی طرف اٹھتی ہیں جو صرف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور کسی جارحانہ مہم جوئی میں دلچسپی نہیں رکھتی۔

مقاومت کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ دراصل لبنان کے واحد دفاعی حصار کو ختم کرنے کی کوشش ہے، جو ایک جارح دشمن کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مغرب، اسرائیل کی روزمرہ کی جارحیت کو نظرانداز کرتے ہوئے، بیروت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے دفاعی حق سے دستبردار ہوجائے اور دشمن کے سامنے سر جھکا دے۔ یہ امن نہیں، بلکہ ایک آمرانہ حکم ہے، جس میں سکون کی قیمت ذلت اور مستقل کمزوری کی صورت میں چکائی جاتی ہے۔

لبنان اس مسلط کردہ دو راہے پر کھڑا ہے، جہاں اسے تسلیم یا تباہی میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں بلکہ ایک تاریخی ناانصافی کے آخری باب سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران شیخ نعیم قاسم نے دانشمندانہ قیادت کے ذریعے اسرائیلی سیکیورٹی چالوں میں الجھنے سے گریز کیا ہے اور وہ صرف فوجی و سیکیورٹی نقصانات کی بحالی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

News ID 1936247

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha