مہر خبررساں ایجنسی کے بین الاقوامی امور کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ کی ایران کے خلاف دھمکی آمیز لفاظی سے عقب نشینی کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ کا ایران پر دباؤ کم ہوگیا ہے بلکہ ایران کے خلاف امریکہ کے زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکہ ایک طرف رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے ایران کے ساتھ مذاکرات کی بات کررہا ہے اور دوسری طرف امریکہ کی ایران کے خلاف پابندیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے امریکہ نے ایک د ن پہلے ہی ایران کے پیٹرو کیمیکل صنعتی شعبہ پر پابندی عائد کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران کے خلاف امریکہ کے دباؤ کا سلسلہ جاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایران نے بھی امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں انکارکرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی قوم امریکی فریب میں نہیں آئے گي۔
ادھر امریکی صدر ٹرمپ کی ایران کے خلاف لفاظی سے عقب نشینی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکہ کے اندر امریکی صدر کی جارحانہ پالیسی کی بڑے پیمانے پر مخالفت کا سلسلہ جاری ہے امریکی صدر کو گروپ بی کے علاوہ ملک کی اندرونی سطح پر نئی جنگ آغاز کرنے کے سلسلے میں سخت مخالفت کا سامنا ہے۔
جاپان کے وزیر اعظم کے تہران اور واشنگٹن کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات ہیں ، جاپان کے وزير اعظم شینزوآبے بدھ کے دن تہران کا دورہ کریں گے ۔ جاپانی وزير اعظم تہران اور واشنگٹن کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ جاپان کو دنیا کے تیسرے بڑے اقتصاد کے عنوان سےبھی جانا جاتا ہے جاپان کو انرجی درآمد کرنےکی سخت ضرورت ہے ۔ ٹوکیو اپنی انرجی کا 80 فیصد حصہ مشرق وسطی سے پورا کرتا ہے لہذا وہ بھی خطے میں جنگ کا خواہاں نہیں ہے ۔ ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے سلسلے میں دو اہم اقدامات ضروری ہے جن میں ایران اور امریکہ کی طرف سے مسائل اور مشکلات حل کرنے کے سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جاپان کے وزیر اعظم امریکی فیصلوں پرکتنے اثر اندازہوسکتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ