مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ترک حکومت نے سعودی عرب اور بعض دیگر ممالک کے ساتھ ملکر شام میں صدربشار اسد کی حکومت کو دہشت گردوں کے ذریعہ گرانے کی ہر ممکن کوشش کی وہابی دہشت گردوں کی فوجی تربیت، مالی امداد اور انھیں شام میں داخل ہونے کی ہر ممکن سہولیات فراہم کیں ترکی اور سعودی عرب نے اپنی مجرمانہ پالیسیوں کے ذریعہ شامی عوام کے امن و سکون کو دہشت گردوں کے ذریعہ تہہ و بالا کیا لیکن شامی عوام نے متحد ہو کر ترکی کی معاندانہ پالیسیوں کو ناکام بنادیا ہے حلب میں نو فلائی زون قائم کرنے کا ترکی کا منصوبہ بھی ناکام ہوگیا ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں ترکی کی طرف سے روس کا جنگی جہاز گرائے جانے کے بعد دونوں ممالک میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہوگئی۔ روس کی طرف سے ترکی کے اس اقدام کی شدید مذمت کے علاوہ سخت نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔اور اب یوں نظر آتا ہے کہ روس ان دھمکیوں کو شام کے میدان جنگ میں عملی جامہ پہنا رہا ہے۔
غیر ملکی دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق روس نے ترکی سے شام کے میدان جنگ میں بدلہ لینے کا فیصلہ کیا اور اس جنگ کا رخ شمالی شام کی طرف منتقل کرتے ہوئے شام میں سرگرم وہابی دہشت گردوں کو ان کے زیر قبضہ سب سے بڑے شہر سے نکال باہر کیا ہے۔ شامی فوج کی کامیابی اور دہشت گردوں کی شکست نے ترکی کے لئے بڑی مشکل کھڑی کر دی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترکی عدم استحکام سے دوچار اپنے ہمسایہ شام میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لئے ہمیشہ سرگرم رہا ہے لیکن روس کی حالیہ کارروائیوں نے اس کی شام کے خلاف معاندانہ پالیسی کو بڑی حد تک درہم برہم کردیا ہے۔ اب اسے ناصرف شام کے غیر علاقائی دہشت گردوں کی طرف سے خطرات لاحق ہیں بلکہ ترک مخالف کردوں کو بھی روس کی بھرپور حمایت حاصل ہوچکی ہے۔
مغربی میڈیا کے مطابق شام کے شمال مغرب میں روس کی فضائی کارروائی کے بعد صدر بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے وہابی دہشت گرد شکست سے دوچار ہیں اور گزشتہ تین سال سے اہم علاقوں پر قائم ان کا قبضہ ختم ہوگیا ہے۔ اس کا ایک اہم نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ترکی کی طرف سے مبینہ طور پر دہشت گرد گروپوں کو فراہم کی جانے والی امداد کا راستہ بند ہوگیا ہے۔ شمالی شام میں روس کی فضائی کارروائیوں نے دہشت گردوں کی سپلائی لائن کاٹ دی ہے ۔
فارن پالیسی میگزین کے مڈل ایسٹ ایڈیٹر ڈیوڈ کینر کہتے ہیں کہ شمالی شام میں روس کی طرف سے ڈی فیکٹو نو فلائی زون کے قیام اور حکومت مخالف دہشت گردوں کو کمزور کرنے کے بعد یہ ترکی کی گزشتہ کئی سال کے دوران شام میں کمزور ترین پوزیشن کہی جاسکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روس کا جنگی طیارہ گرائے جانے کے بعد شام کے شمال میں ترک سرحد کے ساتھ روس نے جو حالات پیدا کئے ہیں ان کے نتیجے میں ترکی کے لئے زمین پر یا فضاءمیں اسٹریٹجک صورتحال پر اثر انداز ہونا ممکن نہیں رہا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ شامی صدر، اسلامی مزاحمتی تحریک اور روس نے ملکر ترکی پر کاری ضرب وارد کی ہے، جس کی شاید ترکی کو توقع نہیں تھی۔
آپ کا تبصرہ