مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مغربی ممالک کی جانب سے اسرائیلی مظالم پر خاموشی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں جاری نسل کشی، اور لبنان، شام و یمن میں اسرائیلی جارحیت کو عالمی برادری کو فوری طور پر روکنا چاہیے۔ا
ایرانی صدر نے کہا کہ صہیونیوں نے اس وقت ایران پر حملہ کیا جب ہم امریکی نمائندوں سے مذاکرات کر رہے تھے۔ ایرانی عوام نے جارحیت کے پہلے لمحے ہی اپنی مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہو کر ثابت کر دیا کہ ایران کبھی ظلم کے سامنے سر نہیں جھکائے گا۔
انہوں نے ان تمام ممالک کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے امریکی و اسرائیلی جارحیت کے دوران ایران کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔
اپنے خطاب میں صدر پزشکیان نے ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر پرامن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے کبھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی آئندہ کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایران خطے میں امن و استحکام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور آذربائیجان و آرمینیا کے درمیان امن عمل کی حمایت کرتا ہے۔ اسی طرح ایران یوکرین کے مسئلے پر منصفانہ اور پائیدار معاہدے کا خواہاں ہے، اور سعودی عرب و پاکستان کے دفاعی معاہدے کو خطے میں جامع سلامتی کی طرف ایک مثبت قدم سمجھتا ہے۔
صدر پزشکیان نے کہا کہ ایران اسرائیلی حکومت کی قطر پر جارحیت کی مذمت کرتا ہے اور قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔ ایران کا مؤقف ہے کہ سلامتی باہمی اعتماد، احترام اور کثیرالجہتی تعاون پر مبنی ہونی چاہیے، اور وہ اداروں کی بحالی اور سیاسی دو قطبی تقسیم سے گریز کی حمایت کرتا ہے۔
اپنے خطاب کے دوران ایران کے تاریخی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے صدر نے واضح کیا کہ ایران نہ ماضی میں ایٹمی ہتھیار بنانے کا خواہاں رہا ہے اور نہ ہی مستقبل میں ایسا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے تین یورپی ممالک نے امریکہ کے اشارے پر غیر قانونی طریقے سے اقوام متحدہ کی منسوخ شدہ قراردادوں کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی۔ ان ممالک نے قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا اور ایران کی مخلصانہ کوششوں کو ناکافی قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ تمام اقدامات اس جوہری معاہدے کو تباہ کرنے کے لیے کیے گئے جسے یہی ممالک کثیرالجہتی سفارت کاری کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیتے تھے۔
صدر پزشکیان نے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بعض ارکان نے بھی اس کی مخالفت کی ہے، اور یہ عالمی سطح پر نہ تو قانونی حیثیت رکھتا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی حمایت حاصل کرسکے گا۔
آپ کا تبصرہ