20 ستمبر، 2025، 12:59 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

اسنیپ بیک پابندیاں؛ حقیقی خطرہ یا محض نفسیاتی دباؤ؟

اسنیپ بیک پابندیاں؛ حقیقی خطرہ یا محض نفسیاتی دباؤ؟

سلامتی کونسل میں اسنیپ بیک میکانزم فعال ہونے کے باوجود ایرانی تیل کی فروخت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اسنیپ بیک کا مقصد صرف علامتی دباؤ ایجاد کرنا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، اقتصادی ڈیسک: ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کے بعد 2015 میں ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں جزوی طور پر نرم کی گئی تھیں تاکہ تہران کے اقتصادی اور تجارتی شعبے میں سہولت فراہم کی جاسکے۔ تاہم 2018 میں امریکہ نے معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی اختیار کی اور سخت اقتصادی پابندیاں دوبارہ نافذ کر دی تھیں۔

اس کے بعد ایران کی تیل برآمدات اور مالی لین دین پر امریکی پابندیوں کا اثر واضح رہا، جبکہ اقوام متحدہ کی کسی نئی پابندی سے ایران کی اقتصادی سرگرمیوں پر براہِ راست دباؤ نہیں پڑا۔ اسنیپ بیک میکانزم، جو JCPOA کا حصہ ہے، مغربی ممالک کی جانب سے دوبارہ پابندیاں نافذ کرنے کا ذریعہ ہے، مگر حالیہ تجربات اور اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ یہ زیادہ تر علامتی نوعیت کی ہیں اور ایران کی تیل فروخت یا پیداوار پر حقیقی اثر نہیں ڈال سکتیں۔

مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے یہ دعوی سامنے آیا ہے کہ اسنیپ بیک میکانزم ایران کی تیل برآمدات کو شدید نقصان پہنچائے گا، تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بیانیہ دراصل تہران پر نفسیاتی دباؤ بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔

جمعہ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران کے لیے پابندیوں میں نرمی کے تسلسل کے حوالے سے قرارداد کے مسودے پر غور کیا، جو اسنیپ بیک عمل کی 30 روزہ مدت مکمل ہونے سے قبل پیش کیا گیا تھا۔ اجلاس میں نو رکن ممالک نے پابندیوں میں نرمی کے خلاف ووٹ دیا، چار نے حق میں ووٹ ڈالا جبکہ دو نے غیر جانبداری اختیار کی۔

اسنیپ بیک میکانزم کے تحت اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران پر پابندیوں میں نرمی جاری رکھنے کی قرارداد منظور نہ ہوسکی، اور یوں سلامتی کونسل نے عملا ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بحالی کی توثیق کر دی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پیش رفت اگرچہ واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کے لیے ایک سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کی جا رہی ہے، تاہم عملی طور پر ایران کی تیل برآمدات پر اس کا اثر محدود ہی رہے گا، کیونکہ امریکہ کی یکطرفہ پابندیاں پہلے ہی سخت ترین شکل میں نافذ ہیں۔

سلامتی کونسل میں ووٹنگ کی تفصیل

امریکہ، برطانیہ، فرانس، یونان، ڈنمارک، سلووینیا، پاناما، سیرا لیون اور صومالیہ نے پابندیوں میں نرمی کے خلاف ووٹ دیے۔ چین، روس، پاکستان، الجزائر نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیے جبکہ کونسل کے صدر جنوبی کوریا اور گیانا نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال نہیں کیا۔

قرارداد کا مسودہ جو ایران پر پابندیوں میں نرمی کو بڑھانے کے لیے پیش کیا گیا تھا، امریکی اور اس کے مغربی اتحادیوں کی مزاحمت کے باعث ناکام رہا۔ اجلاس کے دوران روس کے نمائندے نے کہا کہ ایران جوہری معاہدے کے دستخط کنندگان کو تہران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ نافذ کرنے کا قانونی حق حاصل نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یورپی ممالک کی کوششیں قانونی حیثیت سے خالی ہیں اور ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے سفارتکاری کی کوششوں کی مخالفت کی عکاسی کرتی ہیں۔

کیا اسنیپ بیک پابندیاں ایران کی تیل کی فروخت روک سکیں گی؟

اعداد و شمار کے مطابق ایران کے تیل کی پیداوار اور برآمدات میں 2010 سے لے کر 2012 تک، جب ایران کے خلاف سب سے سخت پابندیاں نافذ کی گئی، ایران کی پیداوار اور برآمدات روزانہ دو لاکھ بیرل سے زائد رہیں۔

تاہم 2012 سے ایران کی تیل کی فروخت پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کا اثر نہیں بلکہ یک طرفہ امریکی پابندیاں اثر انداز ہوئیں۔ یہ پابندیاں 2018 میں دوبارہ نافذ ہوئیں جب امریکہ نے جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کی، مگر اس کے اثرات بعد میں کافی حد تک کم ہوگئے ہیں۔

اسنیپ بیک میکانزم نفسیاتی جنگ یا حقیقی خطرہ؟

شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی دعوؤں کے برعکس جن میں کہا گیا ہے کہ اسنیپ بیک پابندیاں براہ راست ایران کی تیل برآمدات کو کم کریں گی، یہ اقدام زیادہ تر علامتی اور نفسیاتی نوعیت کا ہے۔ یہ میکانزم امریکی وزارت خزانہ کی پہلے سے نافذ پابندیوں سے آگے کوئی اضافی محدودیت ایجاد نہیں کرسکتا۔

ایران کے وزیر تیل، محسن پاک‌نژاد نے دو ہفتے قبل کہا تھا کہ یہ پابندیاں اس حد سے آگے اثرانداز نہیں ہوں گی جو امریکی وزارت خزانہ کی یکطرفہ پابندیوں نے پہلے ہی عائد کر رکھی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ہمیں تیل کی فروخت میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس سال کے پہلے چار مہینوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں روزانہ 21,000 بیرل زیادہ فروخت ہوئے، جو ماہانہ تقریباً 630,000 بیرل بنتے ہیں۔

اسی لیے یہ واضح ہے کہ مغربی ممالک اسنیپ بیک میکانزم کے غیر قانونی استعمال کے ذریعے ایران کی تیل برآمدات پر کوئی اضافی پابندیاں نہیں لگا سکتے۔ ان کا اصل مقصد میڈیا کے ذریعے نفسیاتی دباؤ بڑھانا اور عوامی سطح پر خود کو کامیاب ظاہر کرنا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق مغربی ذرائع کا پروپیگنڈا اصل میں ایران کی تیل فروخت کو نہیں روکتا بلکہ مغرب کے لیے صرف جھوٹی کامیابیاں گھڑنے کا طریقہ ہے۔

News ID 1935454

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha