مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اسرائیل کی جانب سے خطے میں بڑھتی ہوئی جارحیت عرب ممالک کے لیے ایک سنگین خطرے کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ گذشتہ سالوں کے دوران کئی عرب حکومتیں تل ابیب کے ساتھ تعلقات کے قیام اور معمول کے تعلقات کی کوششیں کی ہیں، تو دوسری جانب قطر پر حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صہیونی حکومت کسی ملک کی خودمختاری کا احترام نہیں کرتی۔ اس واقعے سے قطر کا کردار متاثر ہوا ہے۔ ایسے حالات میں عرب ممالک کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ صرف بیانات تک محدود نہ رہیں بلکہ اپنی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے اجتماعی اور عملی اقدامات کریں۔
حماس کے رہنماؤں پر ناکام قاتلانہ حملے کے بعد عرب اور مسلمان سربراہان مملکت کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا۔ اجلاس میں صہیونی حکومت کے خلاف اقدامات کی توقع کی جارہی تھی تاہم دوحہ اجلاس میں کوئی مناسب عملی اقدام سامنے نہیں آیا۔ اجلاس کے بعد اُن عرب دارالحکومتوں کی کمزوری بھی سامنے آئی جہاں اس نوعیت کے حساس مذاکرات منعقد ہوتے ہیں۔
فلسطینی سیاسی تجزیہ کار الیف صباغ نے تہران ٹائمز سے خصوصی گفتگو میں اسرائیل کے وسیع تر مقاصد، عرب ممالک کو لاحق خطرات اور دوحہ حملے کے بعد علاقائی سفارت کاری پر ممکنہ اثرات پر بات کی۔
الیف صباغ کی گفتگو کا متن ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
تہران ٹائمز: کیا دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر صہیونی حملہ جنگ بندی مذاکرات اور ثالثی کی کوششوں پر اثر ڈالے گا؟
الیف صباغ: جی ہاں۔ میرا یقین ہے کہ صہیونی حکومت اور امریکہ کی دہشت گردانہ کارروائی سے مذاکرات کا سلسلہ متاثر ہوگا اور ممکن ہے کہ خواہ عارضی طور پر ہی سہی، چند دن یا چند ہفتوں کے لیے رُک جائیں۔ قطر کے وزیراعظم پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ ان کا ملک ثالثی کا عمل معطل کر رہا ہے۔
اس کے بعد مذاکرات دو راستوں پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ پہلا راستہ یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کوشش کریں کہ یہ مذاکرات قاہرہ منتقل ہوجائیں تاکہ قطر کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ وہ ان کے مطالبات پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔ لیکن میرے خیال میں موجودہ حالات میں نہ مصر اور نہ ہی حماس اس بات کی اجازت دیں گے۔
دوسرا اور بہتر راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ چونکہ امریکہ اور اسرائیل نے اس عرب ملک میں دہشت گردانہ کارروائی کی ہے جو خود کو امریکہ کا اتحادی سمجھتا ہے اور برسوں سے اسرائیل کی خدمت کرتا آیا ہے۔ اس کاروائی کے بعد ممکن ہے کہ ثالثی اور سرپرستی کا کردار امریکہ کے ہاتھوں سے نکل جائے۔ اس صورت میں اقوام متحدہ بطور باضابطہ ضامن میدان میں آئے گی اور سیکرٹری جنرل کے خصوصی ایلچی کے ذریعے اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کی نگرانی کرے گی۔
ان سب کے لیے ایک بین الاقوامی فیصلہ کرنا ضروری ہے، لیکن سب سے پہلے فلسطینیوں اور عربوں کو اس کا اقدام کرنا ضروری ہے، تاکہ جنرل اسمبلی یا سلامتی کونسل میں اکثر ممالک اس کی حمایت کریں۔ اصل سوال یہ ہے کہ: کیا عرب ممالک اتنی جرات رکھتے ہیں یا پھر وہ امریکہ کے غصے سے خوفزدہ رہیں گے؟
تہران ٹائمز: کیا یہ حملہ اسرائیل کی حماس اور مزاحمتی تحریکوں کے خلاف حکمت عملی میں کسی تبدیلی کی علامت ہے؟
الیف صباغ: نہیں۔ صہیونی حکومت نے اپنی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور نہ ہی کرے گی۔ اسرائیل کی اصل پالیسی کسی ایک تنظیم کے خلاف نہیں بلکہ پورے فلسطینی عوام کے خلاف ہے۔ یہ حکومت فوجی، سیاسی، اقتصادی اور حتیٰ کہ امریکی دباؤ سمیت تمام حربوں کو استعمال کرکے فلسطینی شناخت اور فلسطین کا وجود مٹانا چاہتی ہے، تاکہ فلسطینی عوام کو یا تو بے دخل کر دے یا ختم کر دے۔ نتن یاہو اور اس کی کابینہ کے اراکین جڑ سے اکھاڑ پھینکنے جیسے الفاظ کے استعمال میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ یہ وہی بات ہے جسے وہ عبرانی زبان میں کثرت سے دہراتے ہیں اور جسے نتن یاہو نے اس جنگ کے بنیادی ہدف یعنی مکمل فتح یا نسل کشی پر مبنی کامیابی کے طور پر بیان کیا ہے۔
تہران ٹائمز: بین الاقوامی برادری، خاص طور پر عرب ممالک اور امریکہ نے اس حملے پر کیا ردعمل ظاہر کیا ہے؟
الیف صباغ:امریکہ نے کوشش کی کہ اس دہشت گردانہ کارروائی سے خود کو الگ دکھائے، لیکن حقیقت زیادہ دیر چھپی نہ رہ سکی۔ ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ میں اس آپریشن میں شامل تھا، طیارے فضا میں تھے اور میں نے قطر کی قیادت کو اطلاع دی تھی۔ اس طرح اس نے بالواسطہ طور پر اپنی شمولیت کا اعتراف کیا، اگرچہ بعد میں واضح ہوا کہ اس کا یہ بیان درست نہیں تھا۔
نتن یاہو بھی ٹرمپ کو اس معاملے سے بری الذمہ قرار نہ دے سکا اور نہ ہی وائٹ ہاؤس کے حکام نے ایسا کیا۔ امریکہ کی بطور ثالث پہلے سے کمزور ساکھ اب بالکل ختم ہوگئی ہے۔ اب اسے کسی ثالث کے بجائے فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت کا شریک سمجھا جانا چاہیے۔
جہاں تک یورپ کا تعلق ہے، وہ مذمت اور اظہار نفرت کے سوا کچھ نہیں کرے گا۔ وہ عرب دنیا کے عملی اقدامات کا منتظر ہے۔ البتہ بعید نہیں کہ امریکہ فلسطینی وفد کو نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں شریک ہونے کی اجازت دے، تاکہ وہ رام اللہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی کی درخواست پر مذاکرات کے باضابطہ سرپرست کا اپنا کردار بچاسکے۔
تہران ٹائمز: یہ حملہ قطر کے بطور ایک علاقائی سیاسی کھلاڑی کردار پر کیا اثر ڈالے گا؟
الیف صباغ: قطر کا بطور ایک علاقائی اور بین الاقوامی ثالث کردار متاثر ہوگا۔ خاص طور پر اس لیے کہ قطر نے کئی معاملات میں امریکہ کی درخواست پر مشرق وسطی میں اس کی پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں مدد دی ہے۔ قطر اپنی حیثیت کو ایک مؤثر ثالث کے طور پر مضبوط کرنا چاہتا تھا۔ اسی لیے امریکہ کی درخواست پر اس نے اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کی ذمہ داری لی اور حماس کے رہنماؤں کو دوحہ میں اکٹھا کیا۔ یہ ملاقات پہلے ایک ہوٹل میں ہونا تھی لیکن امریکہ کے اصرار پر اسے ایک نجی مقام پر منتقل کیا گیا، اور وہی جگہ بمباری کا نشانہ بنی۔ اب ممکن ہے کہ حماس کے رہنما قطر کی بجائے ترکی منتقل ہونا چاہیں کیونکہ انہیں قطر میں محفوظ محسوس نہیں ہوتا۔ یہ صورتحال یقینا قطر کے حق میں نہیں ہے۔
تہران ٹائمز: کیا یہ حملہ عرب ممالک کے اتحاد کا باعث بنے گا یا مزید اختلافات اور کشیدگی پیدا کرے گا؟
الیف صباغ: یہ دہشت گردانہ کارروائی عرب ممالک، خاص طور پر خلیج فارس کی ریاستوں کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہونی چاہیے تھی تاکہ وہ اپنی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کریں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ممالک اور ان کی حکومتیں اقتصادی، فوجی اور سیاسی لحاظ سے امریکہ پر انحصار کرتی ہیں۔ صہیونی حکومت اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے۔ امریکہ ان حکومتوں کو اپنا اتحادی یا شریک نہیں سمجھتا بلکہ انہیں اپنی مرضی کے سامنے جھکے ہوئے دیکھتا ہے۔ اسی بنیاد پر اسرائیل بھی ان ممالک اور ان کے حکمرانوں کے ساتھ تحقیر آمیز رویہ رکھتا ہے اور ان کی خودمختاری کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ اس کی واضح مثال نتن یاہو کا وہ بیان ہے جس میں اس نے کہا کہ کسی بھی ملک کی حاکمیت کا لحاظ کئے بغیر حماس کے رہنماؤں کا دنیا کے کسی بھی حصے میں تعاقب کیا جائے گا۔ اسی طرح ٹام باراک نے لبنانی حکام سے کہا تھا کہ اسرائیل سايکس-پیکو سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتا اور جہاں چاہے گا داخل ہوگا۔ مزید برآں اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی دانون نے کہا کہ بہت سے عرب رہنما جو عوامی سطح پر دوحہ حملے کی مذمت کرتے ہیں، نجی ملاقاتوں میں ہمیں کہتے ہیں کہ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں کیونکہ وہ حماس سے نفرت کرتے ہیں۔
یہ بیانات نئے نہیں ہیں۔ ماضی اور حال میں اسرائیلی رہنما ایسے ہی جملے دہراتے رہے ہیں اور افسوس کہ کسی عرب حکمران نے آج تک ان کی تردید نہیں کی۔ یہی رویہ اسرائیل کو مزید دہشت گردانہ اقدامات پر اکسائے گا اور اس کے تحقیر آمیز رویے کو مزید تقویت دے گا۔ اسی لیے مجھے بیانات اور بالآخر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے رجوع کرنے کے علاوہ عرب ممالک سے اسرائیل اور امریکہ کے خلاف کسی عملی قدم کی توقع نہیں۔
تہران ٹائمز: بین الاقوامی ادارے اس حملے پر کس طرح ردعمل ظاہر کریں گے؟
الیف صباغ: عرب ممالک دنیا کی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرسکتے ہیں اور ایسے اقدامات کرسکتے ہیں جو امریکہ اور اسرائیل پر دباؤ ڈالیں۔ لیکن یہ سب عرب حکمرانوں کی جرات پر منحصر ہے، کیونکہ یہی ممالک سب سے زیادہ اسرائیلی دہشت گردی کا نشانہ بن سکتے ہیں اور آج وہ حقیقی خطرات کا سامنا کررہے ہیں جن کا انہوں نے ماضی میں تصور بھی نہیں کیا تھا۔
آپ کا تبصرہ