14 ستمبر، 2025، 5:56 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

اقوام متحدہ کا فلسطینی ریاست کی حمایت کا فیصلہ؛ فرانس اور سعودی عرب کی پیشکش کیا ہے؟

اقوام متحدہ کا فلسطینی ریاست کی حمایت کا فیصلہ؛ فرانس اور سعودی عرب کی پیشکش کیا ہے؟

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نیویارک اعلامیہ کی توثیق کرتے ہوئے دو ریاستی حل کے تحت فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی، فرانس اور سعودی عرب نے حماس کو شامل کیے بغیر فلسطین کی تشکیل پر زور دیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اقوام متحدہ میں فلسطین کے مسئلے پر دنیا بھر کی توجہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مرکوز رہی ہے۔ اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کے درمیان جاری تنازع نے عالمی سیاست، انسانی حقوق اور علاقائی استحکام کو متاثر کیا ہے۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے فلسطینی عوام نے اپنی زمین کی واپسی اور خودارادیت کے لیے جدوجہد جاری رکھی ہے۔

1967 کی جنگ کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ پر قبضہ کر لیا، جس کے بعد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کئی بین الاقوامی قراردادیں منظور ہوئیں، جن میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادیں شامل ہیں۔ ان قراردادوں میں فلسطینیوں کو خودارادیت دینے، اسرائیلی قبضے کا خاتمہ کرنے اور دو ریاستی حل کے قیام پر زور دیا گیا۔

بین الاقوامی قراردادوں اور دو ریاستی منصوبوں میں فلسطینیوں کے لیے عملی آزادی اور مکمل حق خودارادیت شامل نہیں رہا۔ حماس اور دیگر مزاحمتی گروپوں کی غیر موجودگی میں حل تلاش کرنے کی کوشش نے فلسطینی عوام کو فیصلہ سازی کے عمل سے خارج کردیا اور ان کی اصل خواہشات کو نظرانداز کردیا گیا۔ اس طرح یہ فارمولا فلسطینی عوام کے حقوق کی عالمی سطح پر معطلی اور اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کو قانونی شکل دینے کا ذریعہ بن چکا ہے۔

نیویارک بیانیہ کے مندرجات

جولائی 2023 میں نیویارک میں سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں مسئلہ فلسطین کے حل اور غزہ میں جنگ بندی کے بارے میں قرارداد پیش کی گئی۔ قرارداد کے حق میں 142 ووٹ، مخالفت میں 12 ووٹ آئے جبکہ 10 نے اپنی رائے کا استعمال نہیں کیا۔ امریکہ اور اسرائیل نے اس اجلاس کی بائیکاٹ کی تھی۔

اعلامیے میں فرانس اور سعودی عرب نے پیش کش کی تھی کہ فلسطین کی نئی ریاست حماس کے بغیر تشکیل پائے۔ قرارداد میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہریوں اور بنیادی ڈھانچے پر حملوں، محاصرے اور بھوک کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی شدید مذمت کی گئی، اور اس بات پر زور دیا گیا کہ حماس کے بغیر دو ریاستی حل پر عمل کیا جائے۔

اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ غزہ کے لیے انسانی امداد فراہم کی جائے، غزہ کی تعمیر نو ہو، غزہ میں عبوری انتظامیہ قائم کی جائے، قیدیوں کا تبادلہ اور اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں واپس کی جائیں اور اسرائیل مکمل طور پر غزہ سے پیچھے ہٹ جائے۔ اس کے ساتھ یہ واضح کیا گیا کہ غزہ اور مغربی کنارے کو متحد رکھا جائے اور غزہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ ہو۔

یہ اقدام اقوام متحدہ کے اجلاس سے 10 دن قبل سامنے آیا ہے اور 22 ستمبر کو ہونے والے اجلاس سے پہلے ہی فرانس نے اعلان کیا کہ وہ فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اقوام متحدہ کے اقدام پر ردعمل

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جمعہ کو اکثریت رائے سے نیویارک اعلامیہ کی حمایت کا اعلان کیا، جس میں دو ریاستی حل کے تحت فلسطین کے قیام کے لیے واضح اور مرحلہ وار اقدامات شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے نیویارک اعلامیہ کی توثیق کے بعد مختلف عالمی اور علاقائی ردعمل سامنے آئے ہیں۔ توقع کے مطابق اسرائیل نے اس اقدام کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ حرکت شرمناک ہے اور موجودہ جنگ کو جاری رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ تل ابیب نے اجلاس کو سیاسی تماشا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اعلامیہ میں حماس کو حالیہ جنگ کی ذمہ دار یا ہتھیار ڈالنے کے مسائل شامل نہیں ہیں۔

امریکہ کی طرف سے بھی مخالفت کی گئی۔ اقوام متحدہ میں امریکی وفد کی مشیر مورگان اورٹاگز نے کہا کہ واشنگٹن پہلے ہی اس اعلامیہ کی مخالفت کرچکا ہے۔ انہوں نے اس اعلامیے کو حماس کے لیے سہولت اور غلط وقت پر کی جانے والی ایک تشہیری حرکت قرار دیا۔

دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی نے اس اقدام کو مثبت قرار دیا۔ فلسطینی اتھارٹی کے نائب سربراہ حسین الشیخ نے کہا کہ یہ اقدام اسرائیل کے قبضے کے خاتمے کی طرف اہم قدم ہے اور وہ دو ریاستی حل اور ۱۹۶۷ کی سرحدوں کے اندر فلسطین کی تشکیل کے حق میں ہیں، جس کا مرکز مشرقی یروشلم ہوگا۔

عرب ممالک نے بھی اس اقدام کا خیرمقدم کیا۔ سعودی عرب نے اعلامیہ کو عالمی اتفاق رائے قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق تک رسائی کے لیے اہم ہے۔ قطر، کویت، مصر اور اردن کے ساتھ خلیج فارس تعاون کونسل اور عرب لیگ نے بھی اس اقدام کو سراہا اور فلسطینی اتھارٹی کی حمایت کی۔

حاصل سخن

نیویارک اعلامیہ اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دو ریاستی حل کے فارمولے کے تحت نیا اعلامیہ منظور کیا ہے تاہم ماضی کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ دو ریاستی حل کا فارمولا فلسطینی عوام کے حقوق کی پامالی کا سبب ہے۔ عرب ممالک کی سطح پر دکھائی جانے والی حمایت کے دعوے اکثر فلسطینی عوام کے اصل مطالبات کے خلاف اقدامات میں تبدیل ہوجاتے ہیں، جبکہ یہ ممالک صہیونی حکومت کے لیے پردہ پوش سہولت اور سیاسی حفاظت فراہم کرتے ہیں۔

یہ منصوبہ فلسطینی مزاحمت اور حماس کو شامل کیے بغیر ایک محدود اور مشروط فلسطینی ریاست کے قیام کی کوشش ہے جس سے اسرائیل کو اپنے قبضے اور اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کا موقع ملے گا۔ دو ریاستی حل فلسطینی عوام کے لیے حقیقی آزادی یا خودارادیت کی ضمانت نہیں، بلکہ ایک ایسا فریم ورک ہے جو اسرائیل کے لیے فائدہ مند ہے اور عالمی سطح پر فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

عالمی اور علاقائی سطح پر ہونے والے یہ اقدامات فلسطینی عوام کی زمین، حقوق اور مستقبل کے تحفظ کے بجائے صہیونی حکومت کے قبضے کو جائز بنانے اور عرب ممالک کے سیاسی مفادات کو محفوظ کرنے میں مددگار ثابت ہورہے ہیں۔

News ID 1935347

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha

    تبصرے

    • PK 19:37 - 2025/09/14
      0 0
      بالکل صحیح تجزیہ کیا ہے حماس کو شامل کیئے بغیر کوئی بھی حل دیر پا ثابت نہیں ہو گا ۔