10 جنوری، 2025، 9:22 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

غزہ پر جارحیت، یورپ اور امریکہ برابر شریک، اسرائیل کو ہتھیار کی فراہمی اور جرمنی کے مفادات

غزہ پر جارحیت، یورپ اور امریکہ برابر شریک، اسرائیل کو ہتھیار کی فراہمی اور جرمنی کے مفادات

گذشتہ 15 مہینوں سے امریکہ اور یورپی ممالک روزانہ صہیونی حکومت کو اسلحہ فراہم کررہے ہیں۔ واشنگٹن کے بعد برلین اسرائیل کو ہتھیار کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک:گذشتہ 15 مہینوں سے غزہ کے خلاف اسرائیلی جنگی جرائم میں 45 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ مغربی ممالک کی طرف سے صہیونی حکومت کی حمایت جاری ہے۔ امریکہ کی جانب سے صہیونی حکومت کو سیاسی اور مالی مدد کے علاوہ اسلحہ کی فراہمی کسی سے مخفی نہیں ہے، مگر یہ سوال کہ یورپی ممالک اسرائیل کی حمایت سے کیوں دستبردار نہیں ہو رہے؟ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔

امریکی خبررساں ادارے "انٹرسیپٹ" نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی جس میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی طرف سے غزہ میں جنگی جرائم بلکہ نسل کشی کے بڑھتے ہوئے شواہد کے باوجود اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی ختم کرنے سے انکار کا انکشاف کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سیاسی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ 35 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کے بارے میں پہلے کوئی خبر منتشر نہیں ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کا مواد مستقبل میں یورپی سیاستدانوں کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات اور عدالتی کاروائی کا باعث بن سکتا ہے۔

یورپی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو اسلحہ کی برآمدات کے اقتصادی اہداف

یورپی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو اسلحہ کی برآمدات پر زور دینے کی اہم وجوہات میں اقتصادی فوائد اور داخلی دفاعی صنعتوں کو تقویت دینا شامل ہیں۔ یورپ کی دفاعی صنعتیں دنیا کی سب سے جدید اور مسابقتی صنعتوں میں شمار کی جاتی ہیں اور ملکی مجموعی پیداوار اور روزگار کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسے یورپی ممالک عالمی سطح پر اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے اسلحہ کی برآمدات پر انحصار کرتے ہیں۔ اسرائیل ان ممالک کے لیے ایک اہم مارکیٹ ہے۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق یورپ کی سالانہ دفاعی مصنوعات تقریبا 109 ارب ڈالر ہے۔ اس میں سے 40 فیصد سے زیادہ غیر یورپی ممالک کو برامد کیا جاتا ہے۔ اسرائیل دنیا کے سب سے بڑے اسلحہ درآمد کنندگان میں سے ایک ہونے کے ناطے ان برآمدات کا ایک بڑا حصہ حاصل کرتا ہے۔

یورپ میں دفاعی صنعتوں نے براہ راست اور بالواسطہ 440,000 سے زیادہ ملازمتیں پیدا کی ہیں۔ صہیونی حکومت کو اسلحہ کی برآمدات سے نہ صرف ان ملازمتوں کو برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہیں بلکہ یہ دفاعی تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کے اضافے کا سبب بھی بنتی ہیں۔ اسرائیل یورپی ممالک کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ جدید ڈرونز اور گائیڈڈ میزائلوں کی ترقی کی لاگت کو برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی سے پورا کریں۔

اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرنے والے یورپی ممالک

یورپ کے مختلف ممالک نے غزہ کی حالیہ جنگ کے دوران امریکہ کے ساتھ مل کر اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ فرانس، برطانیہ اور اٹلی وہ یورپی ممالک ہیں جنہیں اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے سے اقتصادی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

فرانس نے پچھلے دہائی میں اسرائیل کو 226 ملین ڈالر کی مالیت کا دفاعی سامان برآمد کیا ہے۔ پیرس نے اسلحہ کے علاوہ صہیونی حکومت کو دفاعی پرزہ جات بھی فراہم کیے ہیں، جن میں "آئرن ڈوم" جیسے دفاعی نظام کے اجزاء شامل ہیں۔

برطانیہ نے 2018 سے 2022 تک اسرائیل کو اسلحہ کی برآمدات کے لیے 186 ملین ڈالر کی مالیت کے لائسنس جاری کیے تھے۔ گذشتہ 15 مہینوں کے دوران مقاومتی تنظیموں کے خلاف صہیونی حکومت کی ضروریات میں اضافے کے ساتھ ان برآمدات کی مقدار میں بھی اضافہ کیا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ نے کچھ اتحادیوں کے ساتھ مل کر یمن پر مسلسل حملے کیے  ہیں۔

اٹلی جو یورپ میں اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرنے والے بڑے یورپی ممالک میں شمار ہوتا ہے، نے 2023 کے آخری تین مہینوں میں اسلحہ کی فروخت کا عمل جاری رکھا ہے حالانکہ اس سے پہلے روم نے صہیونی حکومت جیسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کو اسلحہ کی فراہمی بند کرنے کا دعوی کیا تھا۔

جرمنی، امریکہ کے بعد صہیونی حکومت کو ہتھیار فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک

جرمنی اسرائیل کے اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ برلین یورپی ممالک میں سے صہیونی حکومت کا سب سے بڑا حامی ہے اور 2023 میں اسرائیل کو 326.5 ملین یورو مالیت کے اسلحہ جات کی برآمدات کے لائسنس جاری کیے ہیں جن میں جدید آبدوزیں، ٹینک اور فوجی الیکٹرانک سامان شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر برائے انسانی حقوق بن شاؤل نے چند روز پہلے غیر ملکی نیوز ایجنسی ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ اور جرمنی صہیونی حکومت کو 99 فیصد اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ 69 فیصد اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرتا ہے جبکہ تقریبا 30 فیصد باقی اسلحہ جرمنی فراہم کرتا ہے۔

جرمنی کی صہیونی حکومت نواز پالیسیوں کی ایک بنیادی وجہ دونوں کے درمیان تاریخی معاہدہ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی ممالک نے اسرائیل کے قیام کے ذریعے صہیونیوں کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ آج بھی غاصب حکومت کے اتنے بڑے جرائم کے باوجود مغربی حکومتیں پوری قوت کے ساتھ اس سلسلے کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ عزم جرمنی کے سیاسی نظام میں گہرائی تک سرایت کر چکا ہے اور دو طرفہ فوجی اور سیکیورٹی تعلقات کا بنیاد بن چکا ہے۔

اقتصادی اعتبار سے جرمنی کی دفاعی صنعت اس کی سب سے جدید اور منافع بخش اقتصادی شعبوں میں سے ایک ہے۔ اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنا نہ صرف آمدنی کا ذریعہ ہے بلکہ وسیع پیمانے پر روزگار بھی پیدا کرتا ہے اور جرمنی کی دفاعی کمپنیوں کو عالمی سطح پر سرگرم رکھتا ہے۔

2023 میں جرمنی نے اسرائیل کو 326.5 ملین یورو سے زیادہ مالیت کا اسلحہ برآمد کیا، جس میں جدید ٹینک لئوپارد اور ریڈار سسٹمز شامل ہیں۔ یہ معاہدے جرمنی کو اپنی تکنیکی صلاحیتوں کو بڑھانے اور دفاعی صنعتوں کو مضبوط کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اسرائیل کو ڈولفن کلاس کی آبدوزوں کی فروخت کے معاہدے نے نہ صرف 2000 جرمن کارکنوں کے لیے براہ راست روزگار فراہم کیا بلکہ سپلائی چین کو بھی متحرک رکھا۔

سیاسی اور سیکیورٹی نقطہ نگاہ سے اسرائیل ایک اسٹریٹیجک اتحادی کے طور پر جرمنی کی خارجہ پالیسی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دونوں کے درمیان سیکیورٹی معلومات کے تبادلے، دفاعی تحقیق و ترقی اور مشترکہ خطرات کا مقابلہ کرنے میں قریبی تعاون نے ان کے فوجی تعلقات کو محض تجارتی تعلقات سے بڑھا کر ایک گہری سٹریٹجک شراکت داری بنادیا ہے۔

جرمنی اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرتے ہوئے نہ صرف اس کی سیکیورٹی کو مستحکم کرتا ہے بلکہ مغربی ایشیا میں اپنے اثرورسوخ کو بھی بڑھاتا ہے۔ اس سے جرمنی کو مشرق وسطی میں فعال کردار ادا کرنے اور عالمی سیاست میں اپنے مقام کو مستحکم کرنے کا موقع ملتا ہے۔

مذکورہ وجوہات کے پیش نظر کوئی دوسرا یورپی ملک جرمنی کی طرح اسرائیل کی سیاسی، مالی اور فوجی حمایت میں اتنا فعال نہیں رہا ہے۔ برلین نے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت کی ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ برلن یا جرمنی کے دیگر شہروں میں فلسطین کی حمایت میں مظاہروں کی صورت میں پولیس کے حملوں، حکومتی دھمکیوں اور میڈیا کے لعن وطعن کا سامنا ہوتا ہے۔

مجموعی طور پر اگرچہ یورپ کی اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرنے کی پالیسی اقتصادی مفادات، سیاسی اہداف اور سیکیورٹی کی ضروریات کا مجموعہ ہے تاہم اس کے نتیجے میں یورپ کو ناقابل انکار منفی نتائج کا بھی سامنا ہے۔ یورپی ممالک نے ایسی حکومت کے جرائم کی حمایت کی ہے جو تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی میں ملوث ہے۔ جرمنی کے اس موقف سے برلین کے مشرق وسطی کے کئی ممالک، خاص طور پر عرب-اسلامی ممالک، کے ساتھ تعلقات کمزور ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ یورپی حقوق انسانی تنظیمیں اور عوام اسرائیل کی فوجی حمایت کے خلاف شدید احتجاج اور تنقید کررہے ہیں۔

News ID 1929478

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha