مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مغربی ایشیا کے اسٹریٹجک امور کے تجزیہ کار اسد ابو خلیل نے دمشق کی دہشت گرد حکومت اور صیہونی رجیم کے درمیان مستقبل میں ممکنہ تعاملات کا جائزہ لیا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ داعش اور القاعدہ جیسے انتہا پسند گروہوں نے اپنے مختلف علاقوں میں صیہونی حکومت کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے اور یہ گروہ صرف مسلمانوں کا قتل عام کرتے آرہے ہیں جو کہ ان کے تل ابیب سے گہرے رابطہ کا واضح ثبوت ہے۔
انہوں نے ان گروہوں اور صیہونی دشمن کے درمیان تعاون کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ صیہونی حکومت نے پہلے بھی اعتراف کیا ہے کہ اس نے ان گروہوں کے زخمی عناصر کو اپنے اسپتالوں میں علاج کی سہولت فراہم کی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق شام میں دہشت گرد گروہوں کے قبضے کے فوراً بعد برطانوی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ تحریر الشام کو دہشت گرد گروہ قرار دینے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی۔
امریکی حکومت نے بھی چند گھنٹوں بعد اس مسئلے پر توجہ دی۔ اگرچہ، امریکہ کی تاریخ میں کبھی بھی ان گروہوں کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ نہیں ہوا جو اس ملک کی افواج کے ساتھ برسرپیکار ہوں۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ اس سلسلے میں فیصلہ ساز عناصر امریکہ کی صہیونی لابی ہیں جو اس ملک کے نقطہ نظر سے دہشت گرد گروہوں کی نوعیت کا تعین کرتی ہے اور مختلف شخصیات اور تنظیموں کے خلاف پابندیاں عائد کرتی ہے۔
دوسری جانب شام پر صیہونی حکومت کے بڑے پیمانے پر حملوں کے ذریعے اس ملک کے فوجی ڈھانچے کی تباہی اور ملک کے نئے علاقوں پر قبضہ در اصل دمشق پر قابض تحریر الشام کے ساتھ ملی بھگت کا واضح ثبوت ہے۔
قابل غور ہے کہ دہشت گرد گروہوں نے نہ صرف شام پر صیہونی حملوں اور قبضے کی مذمت نہیں کی، بلکہ اس کے برعکس، تحریر الشام کے سرغنہ الجولانی نے غزہ کی نسل کشی میں صیہونیوں کے کردار کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے "خطے کے خلاف ایران کی جنگ" قرار دیا۔!
اسد ابو خلیل نے اپنی رپورٹ میں دمشق پر قابض دہشت گردوں کی نئی حکومت سے صیہونی رجیم کے 18 مطالبات کا ذکر کیا ہے جو درج ذیل ہیں:
1- شام کی حکومت اور معاشرے کی منظم تباہی، جیسا کہ اس سے پہلے سوڈان، لیبیا، لبنان، یمن اور عراق میں کیا جا چکا ہے۔
2- شام کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور سائنسدانوں کے قتل کے بعد، ملک کی فوج کو براہ راست امریکی نگرانی میں دینا، امریکی نگرانی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ شامی فوج کمزور اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے سے قاصر رہے۔
3- شام کے بعض علاقوں جیسے قنیطرہ میں صیہونی حکومت کا براہ راست اثر و رسوخ پیدا کرنا
4- فرقہ وارانہ بنیادوں پر فوج کو منتشر کرکے اسے ایک دوسرے کے دشمن اور متحارب گروہوں میں تبدیل کرنا
5- شام کو کئی فرقہ وارانہ حکومتوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کرنا
6- شام کے دروزیوں کو اس ملک سے الگ کرنے کی کوشش کرنا
7- شام میں قبائلی تقسیم پیدا کرکے انتشار پھیلانا۔
8- اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے کلچر کو ختم کرنا اور ملک کے سابق حکومتی اہلکاروں کی منظم ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے اسرائیل کے لئے راستہ فراہم کرنا۔
9- صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے باقی ماندہ علاقوں کو شام کی مرکزی حکومت کے کنٹرول میں لانے کی کوشش
10- امریکی پابندیوں کے خاتمے کو صیہونی رجیم کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے جوڑنا۔
11- شام میں موساد کے مراکز کا قیام
12- اسرائیلی یا امریکی قبضے کے خلاف مزاحمتی تحریکوں کو روکنے کے لئے فرقہ وارانہ گروہوں اور تکفیری جتھوں کو تربیت دینا۔
13- دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے شام میں امریکی قبضے کو دوام بخشنے کی کوشش
14- انتقامی تشدد کے بہانے ملک میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کرنا
15- شام اور لبنان کے درمیان دشمنی پھیلانے کی کوشش
16- عرب اور شامی قوم پرستی کی بنیاد پر دین بیزاری
17- شام اور ایران کے درمیان دشمنی پیدا کرنے کی سرتوڑ کوشش
18- شامی اور فلسطینی قوم کے درمیان دشمنی پیدا کرنے کے لئے مختلف معاندانہ طریقوں کا استعمال۔"
آپ کا تبصرہ