مہر خبررساں ایجنسی، مہر میڈیا گروپ کے ڈائریکٹر محمد مہدی رحمتی کا تجزیاتی نوٹ: ایران کی جانب سے "وعدہ صادق" جوابی کارروائی کے بعد صیہونی حکام نے مختلف سطحوں پر ہمآہنگ ردعمل کی ضرورت پر بات کی۔ ایران کی جوابی کاروائی کے چار دن بعد، اسرائیلی طیاروں کی فضائی جارحیت اور ان کے بعض کرائے کے دہشت گرد عناصر کی شرارت سے شام، عراق اور ایران کے اہداف پر حملے کیے گئے۔
اگرچہ غاصب رجیم کی جانب سے کیے گئے حملے کی درست تفصیلات ابھی تک واضح نہیں، لیکن اگر ہم اسے اسرائیل کے اعلیٰ ترین سطح کے دعوے کی بنیاد پر دیکھیں تو عراق کی سرزمین پر متعدد میزائل داغے گئے اور عین اسی وقت بہت سے چھوٹے ڈرونز نے اصفہان، مشرقی آذربائیجان اور وسطی صوبوں میں ایرانی فوجی تنصیبات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔
تاہم اس کارروائی کے ساتھ ہی، مغرب کے مین اسٹریم میڈیا اور ایران کے مخالفین نے صیہونی رجیم کی کاروائی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور واقعے کے حقیقی پہلووں کا ذکر کیے بغیر اس مرحلے پر تنازعہ کے خاتمے کا اعلان کیا۔
لیکن یہ حملہ، نیتن یاہو اور اس کی انتہا پسند کابینہ کی جنگی بیان بازی کے مقابلے میں، اس رجیم کی حالیہ برسوں میں انجام پانے والی تخریب کارامہ کارروائیوں کے انداز میں ایک ناکام دہشت گردانہ حملہ تھا۔ یہاں تک کہ اصفہان میں آٹھویں شکاری بیس کے قریب کی کاروائی بھی عام شہریوں کے لیے قابل توجہ یا تشویشناک نہیں تھی۔
حیرت کی بات ہے کہ صیہونی حکومت نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور اس پر خاموشی اختیار کی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے غاصب رجیم کے زیر قبضہ علاقوں پر حملے کے سرکاری اعلان کے مقابلے تل ابیب کی خاموشی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، جو ذیل میں بیان کی جارہی ہیں۔
ناکام حملہ
صیہونی حکومت کے فوجی اور سیاسی حکام کے تجزیوں میں اس آپریشن کی ناکامی کا یقین: اگرچہ اس سے پہلے شام میں ایرانی سفارت خانے کی عمارت پر آخری دہشت گردانہ حملے میں صیہونی حکومت نے سرکاری طور پر ذمہ داری قبول نہیں کی؛ لیکن یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ کم از کم حالیہ حملے کی ذمہ داری قبول کریں گے تاکہ اپنی ملکی رائے عامہ کو قائل کیا جا سکے اور توازن پیدا کیا جا سکے۔
لیکن لگتا ہے کہ میڈیا کہ ہنگامہ خیزی کے باوجود، اس آپریشن کے ماسٹرمائنڈ اس کی ذمہ داری قبول کرنا نہیں چاہتے۔
دوسرا عنصر جو صیہونی حکومت کے اس معاملے پر خاموش رہنے کا سبب بنتا ہے، وہ ہے نہ ختم ہونے والے انتقامی ردعمل۔
مغربی میڈیا کی جانب سے اس حکومت کی حمایت کرنے کی کوششوں کے باوجود مغربی ایشیائی خطے میں کشیدگی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کئے گئے اقدامات کو کامیابی سے پیش کیا گیا، نیتن یاہو اور ان کی جنگی کابینہ کے اس روئے میں طوفان الاقصیٰ کے بعد مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
تیسری وجہ جو اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے میں حکومت کی ہچکچاہٹ کا سبب بن سکتی ہے۔ وہ علاقائی کرائے کے قاتلوں اور ایرانی سرزمین میں اس کے خفیہ گماشتوں کی شناخت کی حفاظت ہے، کیونکہ چھوٹے ڈرونز کا یہ حملہ ان کے لوکل گماشتوں کے بغیر ادھورا رہ جاتا اور یہ معمولی کامیابی بھی حاصل نہ ہوتی۔ اس کے علاوہ، اندرونی تخریب کاری کے اقدامات نہ صرف حکومت کے حق میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرتے ہیں، بلکہ اس کی دہشت گردانہ نوعیت کو بھی تقویت دیتے ہیں۔
طاقت کے توازن تک رسائی، جس کی نیتن یاہو کو ضرورت تھی
صیہونی حکومت اور اس کی پروپیگنڈہ مشنری کی طرف سے گزشتہ دنوں کی زیادہ تر ہنگامہ آرائی، ایران اور اس رجیم کے درمیان محاذ آرائی کا توازن بگرڑ جانے کی وجہ سے تھی۔
ایرانی سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے دو فوجی اور سیکورٹی مراکز پر براہ راست حملے کا مطلب اس رجیم کے ساتھ ایران کی محاذ آرائی کی سطح کو تبدیل کرنا ہے۔
اگرچہ آپریشن سے پہلے فراہم کردہ معلومات، طریقہ کار اور استعمال ہونے والے آلات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران نے اس حکومت کے شہریوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔
لیکن واضح طور پر یہ پیغام تھا کہ ایران کے اسٹریٹجک صبر پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور وہ ملکی اہداف پر حملوں پر خاموش نہیں رہے گا۔ جب کہ اس کے پاس ایسی صورت حال کا براہ راست مقابلہ کرنے کی ضروری طاقت اور ڈیٹرنس پاور ہے۔
مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپریشن وعدہ صادق نے ایران اور صیہونی حکومت کے درمیان طاقت کا توازن بدل دیا۔ اسی بنیاد پر حالیہ دنوں میں نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کی کوششیں یہ تھیں کہ ایران پر حملے کو قانونی جواز فراہم کیا جائے تاکہ براہ راست محاذ آرائی میں توازن پیدا کیا جا سکے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایران تک رجیم کی رسائی کے توازن کو برقرار رکھنے یا تبدیل کرنے کے لیے ایک پیشگی شرط یہ ہے کہ ایرانی سرزمین پر براہ راست حملے کی ذمہ داری قبول کی جائے اور اگر ایسا کوئی مقصد حاصل ہو گیا ہے تو نیتن یاہو کیوں اس ذمہ داری کو قبوکل کرنے سے کیوں گریز کر رہے ہیں؟
مذکور تین دلائل کی بنیاد پر ایسا لگتا ہے کہ پچھلے دنوں جو کچھ ہوا وہ صہیونی حکام کے نقطہ نظر سے ایران کے جوابی حملے کا باوقار ردعمل نہیں ہے بلکہ دیگر وجوہات نے اس رجیم، امریکہ اور نیتن یاہو کے دوسرے حامیوں کو اس پر عمل درآمد کرنے پر مجبور کیا ہے۔
عجلت میں کی گئی یہ کارروائی کی ایک وجہ بائیڈن حکومت کے حالیہ چیلنجز میں اسرائیل کی حمایت کے ساتھ ہی انسانی حقوق کے خراب شدہ امریکی امیج کی بحالی بھی ہے، جو موجودہ ڈیموکریٹوں کی حکومت کے لیے زیادہ اہم ہے۔
شاید ایک اور جنگی توازن یا ضرورت پیدا ہو گئی ہے
18 اپریل کو الجزائر کی طرف سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں "ریاست فلسطین کو بطور رکن قبول کرنے" کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ گزشتہ ماہ امریکیوں کے متضاد رویے اور بعض انتہائی سخت اقدامات کی کے باوجود اس قرارداد کو رکن ممالک کی عمومی حمایت حاصل رہی؛ اگرچہ اس مسودے کو صرف امریکہ نے ویٹو کیا تھا۔ امریکیوں کے مقبوضہ علاقوں میں دو حکومتوں کی تشکیل کے دعوے کے باوجود فلسطین کو مکمل طور پر تسلیم کرنے کی قرارداد کے ویٹو سے رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کی امریکا اور صیہونی حکومت کی مشترکہ کوشش ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ یہ حملہ عسکری نوعیت کے توازن کو بدلنے کے بجائے صرف میڈیا کی ہنگامہ خیزی تک رہا جو امریکیوں کے متضاد رویے کو عوام کی نظروں سے اوجھل ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اقوام متحدہ میں فلسطین کی حتمی رکنیت کی قرارداد کو ویٹو کرنے میں وہی امریکی حمایت، جو نیتن یاہو کے لیے ایک بھاری سیاسی نقصان سمجھی جاتی اور اس صورت حال میں ان کی حکومت کی پوزیشن مزید متزلزل ہوتی، اس کی وجہ بنی ہو کہ یہ عجلت پسندانہ، دہشت گردانہ اور غیر موثر ردعمل رائے عامہ کو قائل کرنے اور امریکیوں کے امن پسند امیج کو برقرار رکھنے کے لیے ظاہر کیا گیا ہو۔ تاکہ اگر صیہونی رجیم اور ایران کے درمیان کوئی توازن قائم نہ ہو تو کم از کم بائیڈن کی اس موثر حمایت کی مناسب تعریف کی جائے۔
آپ کا تبصرہ